بھارتی انتخابات – ایکسپریس اردو

0

www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

جون کا آغاز ہی جس دھماکا خیز خبر سے ہوا وہ بھارتی انتخابات کے نتائج تھے۔ جس کو عالمی میڈیا نے بڑی کوریج دی۔ اس کے اثرات یہ مرتب ہوئے کہ انڈین اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اور بھارتی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں گر گیا۔

بھارتی کارپوریٹ سیکٹر جو مودی کے ساتھ تھا اس کو تباہ کن نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ فوربز اور بلوم برگ کے مطابق گوتم اڈوانی کو ایک ہی دن میں69 کھرب 64ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جب کے مکیشں امبانی کو7کھرب، جندال خاندان کو5کھرب اور کمار منگلم کو 2کھرب سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ وجہ اس کی یہ ہوئی کہ مودی سرکار واضع اکثریت نہ حاصل کر سکی۔ تمام ایگزٹ پول جو مودی حکومت نے مینج کیے ہوئے تھے وہ مودی کے نعرے اب کی بار 400پار کی تصدیق کر رہے تھے لیکن اس کو بمشکل سادہ اکثریت مل سکی۔

پنڈت جواہر لال نہرو لگاتار تین مرتبہ وزیر اعظم بنے۔اس ریکارڈ کو اب جا کر مودی نے توڑا ہے۔ زیادہ سے زیادہ نشستیں 404 کانگریس نے 1984ء میں جیتیں جب اندراگاندھی کا قتل ہوا تھا۔ جس کا ثبوت رام مندر ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر بھی کام نہ آئی۔ یعنی رام مندر کے افتتاح سے شروع ہونے والا مودی کا انتخابی سفر ایودھیا میں شکست پر ختم ہو گیا۔ یوپی کی بیشتر نشستوں پر بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوپی کی 43نشستوں پر اپوزیشن اتحاد کامیاب رہا جب کہ حکمران اتحاد نے صرف36نشستیں حاصل کیں۔

یوپی کی اہمیت ایسی ہی ہے جس طرح پاکستانی انتخابات میں پنجاب کی۔ بی جے پی کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانی پڑے گی۔ کیونکہ اس کی اپنی نشستیں صرف240 ہیں۔ جب کہ حکومت سازی کے لیے 272 نشستیں چاہیں۔ اس طرح سے بھارت میں اس وقت نتیش کمار اور چندرا بابونائیڈو کنگ میکر بن گئے ہیں۔ جب کہ نائیڈو مودی کو ماضی میں دہشت گرد کہتے رہے ہیں۔

راہول گاندھی نے اس انتخابات کے بارے میں کہا ہے کہ ہم نے یہ الیکشن صرف بی جے پی کے خلاف نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری کے خلاف لڑا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں، بیوروکریسی اور آدھی عدلیہ بھی ہمارے خلاف تھی۔ بی جے پی نے پارٹیاں توڑیں۔ وزرائے اعلیٰ کو جیلوں میں ڈالا اور ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔ اندازہ کریں کہ ہندواتا کے نام پر ہندو بنیاد پرستی کا زہر کس طرح پورے بھارت میں پھیلایا گیا۔

جس کی سرپرستی بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بی جے پی کی شکل میں کی، پاکستان سمیت خطے میں پھیلی دوسری بنیاد پرستیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ بنیاد پرستی کا زہر بیوروکریسی، میڈ یا،نیچے سے اوپر تک اعلیٰ عدلیہ،فلم انڈسٹری، کھربوں پتی کا رپوریٹ سیکٹر میں بھی پھیل گیا۔ اس سے عام آدمی نے تو متاثر ہونا ہی تھا۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق انتخابی نتیجہ ایک دہائی سے ہندوستان کے سیاسی منظر نامے پر حاوی طاقتور لیڈر کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ ان انتخابات میں مودی کا نفرت کا بیانیہ بھی کام نہ آیا۔

نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے کہ 2024ء کے نتائج نے مودی کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو توڑ دیا، اخبار نے لکھا کہ بھارتی ووٹرز آخر کار جاگ گئے۔ مایوس کن انتخابات کے بعد مودی کی شخصیت گھٹ گئی ہے اور وہ زمین پر گر گئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے ہندو قوم پرستی پر مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ رام مندر کی تعمیر نے بھی ووٹروں کو متاثر نہیں کیا، امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے بھی نتائج کو مودی کے لیے ایک سرزنش قرار دیا۔ گارڈین نے لکھا مودی کے حوالے سے یہ تاثر ختم ہو گیا کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں۔ ان ہی خیالات کا اظہار بی بی سی نے بھی کیا۔

باوجود اس کے مودی کے گزشتہ دو ادوار میں جی ڈی پی 8.5 فیصد پر پہنچ گئی لیکن دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بھی بڑھتی گئی۔ مودی آمریت میڈیا سمیت پورے ریاستی ڈھانچے کو اپنے کنٹرول میں لینے کے باوجود سوشل میڈیا سے شکست کھا گئی۔ ایک طرف پوری ریاستی طاقت دوسری طرف سوشل میڈیا۔ وہی ہوا جو پاکستان میں ہوا۔ مودی کے عزائم کو شکست دینے میں فیصلہ کن کردار سوشل میڈیا کا تھا۔

بھارتی انتخابات کے نتائج خطے کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان بد ترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دو چار ہے۔ ان حالات میں مودی کا دو تہائی اکثریت نہ لے پانا پاکستان کے لیے Blessing in Disguise ہے۔ ورنہ پاکستان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ خطے کے دوسرے ممالک بھی ان نتائج پر سکھ کا سانس لیں گے۔

اب مودی کے بے لچک رویے میں تبدیلی آئے گی۔ اتحادیوں پر منحصر حکومت آخر کار لچک دار رویہ اختیار کرنے پر مجور ہو گی۔ جس کا اثر کشمیر اور دوسرے معاملات پر یقیناً پڑے گا۔ گزشتہ دو انتخابات میں مودی نے اپنی جیت پر سارک ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا تھا۔ لیکن اس دفعہ سارک ممالک کے سربراہوں کو مدعو نہیں کیا گیا ہے حیرانی کی بات ہے۔ شاید شاک بہت گہرا ہے۔

گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ دعا کریں کہ مودی کو دوتہائی اکثریت نہ ملے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بارھویں گھر کے اثرات کی وجہ سے 2025-26ء میں مودی حکومت بحران کی لپیٹ میں آجائے گی۔


%d8%a8%da%be%d8%a7%d8%b1%d8%aa%db%8c-%d8%a7%d9%86%d8%aa%d8%ae%d8%a7%d8%a8%d8%a7%d8%aa-%d8%a7%db%8c%da%a9%d8%b3%d9%be%d8%b1%db%8c%d8%b3-%d8%a7%d8%b1%d8%af%d9%88

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *