دلِ مردہ دل نہیں ہے۔۔۔۔۔ !

0

تمام تر حمد و ستائش پروردگارِ عالم کے لیے۔ تمام تر دُرود و سلام حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر۔

یہ ایک مسلّمہ صداقت ہے کہ جب رُوح اﷲ کے ذکر سے، اﷲ کے پیاروں کے ذکر سے غافل ہوجاتی ہے، تو اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ بعض رُوحیں قریب المرگ ہوتی ہیں، مگر ایک جملہ، ایک فقرا، ایک حدیث، ایک نصیحت اُن کی رُوحوں کو زندگی عطا کردیتی ہے۔ اُنہیں شِفا مل جاتی ہے۔

حضرتِ آیۃ اﷲ بروجردیؒ کے اُستادِ محترم ہیں جناب جہانگیر قشقائی، چالیس سال تک موسیقار ہیں۔ معنویت سے کوئی تعلق نہیں ہے، رُوح مردہ ہے۔ کوئی تعلق نہیں ہے اُن کا دِین سے، مکتب سے، اﷲ سے، اﷲ کے ذکر سے، قرآنِ کریم سے، خوفِ قبر سے، کوئی تعلق نہیں ہے، بس موسیقی سے عشق ہے۔ ان کے آلہ موسیقی کا تار ٹُوٹ گیا۔ اُسے بنوانے کے لیے اصفہان نامی شہر میں آگئے، ایک موچی کے پاس آکر کہنے لگے: ’’بھائی! بتاؤ، میرے اِس آلۂ موسیقی کا تار ٹُوٹ گیا، یہ تار کون جوڑتا ہے؟‘‘

ایک مرتبہ اُس موچی نے سر سے لے کر پیر تک دیکھا اور پھر کہا:

’’تمہارا بھی تو اﷲ سے تار ٹُوٹا ہوا ہے، اُس کو جوڑنے کی فکر ہے تمہیں ؟‘‘

جناب جہانگیر قشقائی زمین پر بیٹھ گئے۔

کہنے لگے: ’’صحیح کہہ رہے ہو۔ میرا بھی اﷲ سے تار ٹُوٹا ہوا ہے۔ اﷲ یاد ہی نہیں آتا۔ بتاؤ یہ تار کون جوڑتا ہے؟‘‘

اپنے آلہ موسیقی کو تو وہیں رکھ دیا اور کہا:

’’اِس کو تو جُڑوانا ہی نہیں ہے، اب اپنا تار جُڑوانا ہے۔ بتاؤ یہ تار کون جوڑتا ہے؟‘‘

موچی نے محبت و خلوص کے ساتھ کہا: ’’وہ سامنے مدرسہ ہے۔ مدرسے میں جتنے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، اُن کا کام ہی یہ ہے۔ وہ اﷲ سے تار جوڑتے ہیں۔‘‘

آگئے مدرسے کے اندر، بُزرگ علماء تشریف فرما تھے، ایک مرتبہ بیٹھ کر کہتے ہیں:

’’حضور! میرا اﷲ سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ میری رُوح مردہ ہونے کو ہے۔‘‘

اور پھر الحمدﷲ، ایسا تار جُڑا عزیزو! کہ مرجعِ تقلید بنے۔ لہٰذا اگر رُوح قریب المرگ بھی ہو، تو نااُمید نہیں ہونا چاہیے۔ بعض اوقات ذکرِ سیّد الشّہداء حضرت امام حسینؓ بھی رُوح کو حیات عطا کردیتا ہے۔ لہٰذا رُوح کی حیات چاہیے۔ شخصیت اُس وقت تک شخصیت نہیں ہوسکتی جب تک کہ اُس کی رُوح زندہ نہ ہو۔

عزیزانِ گرامی! ایک کامل بُزرگ، عارفِ کامل، شیخ بہائیؒ (اﷲ اُن کا مقام اور بلند کرے) کا نہایت اہم اور نصیحت آموز واقعہ ہے۔ اُن کی کرامت کہیے۔ کسی مسجد میں وعظ سُننے گئے، واعظ بہترین دلائل کے ساتھ بہترین تفسیرِ قرآن، احادیث اور روایات وغیرہ پہ مشتمل خطاب کررہے تھے، لیکن لوگوں پر اُن کی گفت گو کا کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔

شیخ بہائی ؒ نے جب یہ صورتِ حال دیکھی، تو بہ فضلِ تعالیٰ اپنے باطنی وجدان اور بصیرت کی بدولت معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ وعظ سے اُٹھے، مسجد سے باہر نکلے اور لوگوں سے پوچھا کہ جو مقرر صاحب اندر خطاب کر رہے ہیں، اُن کا گھر کہاں ہے؟

لوگوں نے راہ نمائی کردی۔ پہنچے اُن مبلّغ صاحب کے گھر اور جاکر دروازہ کھٹکھٹایا۔

اُن کی اہلیہ نے پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘

شیخ بہائی ؒنے اُن کے شوہر کے متعلق پوچھا۔

اہلیہ صاحبہ نے کہا: ’’وہ تو مسجد میں وعظ میں مصروف ہیں۔‘‘

شیخ بہائی ؒنے کہا: ’’بی بی! تم کون ہو؟‘‘

کہا: ’’میں اُن کی اہلیہ ہوں۔‘‘

شیخ بہائی ؒ نے کہا: ’’بی بی! مجھے تمہارے شوہر کے بارے میں تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘

وہ بولیں: ’’کہیے۔‘‘

’’بی بی! تمھارا شوہر بہترین مقرر ہے، لیکن اُس کے وعظ میں تاثیر نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہوا ہے، جس کے باعث خداوند تعالیٰ نے اُس کی زبان سے تاثیر سلب کرلی ہے۔‘‘

مقرر کی اہلیہ نے چند لمحے سوچ کر کہا: ’’اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا، لیکن آپ کی بات اِس اعتبار سے دُرست نظر آتی ہے کہ میرے شوہر میں بہت سی نیکیوں اور خوبیوں کے ساتھ ایک بُرائی ہے۔‘‘

شیخ بہائیؒ کے استفسار پر مقرر کی اہلیہ نے بتایا: ’’رات کو سونے سے قبل وہ ایک حرام کام کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’یَاسَتّارُ، یَاغَفَّارُ، یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ اور پھر سوجاتے ہیں۔‘‘

شیخ بہائیؒ چوں کہ پہلے ہی معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے تھے، لہٰذا اُس خاتون سے فرمایا:

’’بی بی! آج رات تم ایسا کرنا کہ جب تمھارا شوہر تم سے اُس حرام کام میں مدد مانگے تو اُس سے یک بارگی کہنا:

آج ’’ یَاجَبَّارُ، یَا قَھَّار ُیَاعَزِیْزٌ یَاذُوانْتِقَام کہہ کر گناہ کر۔ پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ اِن شاء اﷲ، اُس کے مرض کا شافی علاج ہوجائے گا۔‘‘

واعظ کی اہلیہ نے بالکل ایسے ہی کیا۔

واعظ بہت سمجھ دار انسان تھا۔ فوراً سمجھ گیا۔ غصّے سے اہلیہ کو پاس بٹھا کر پوچھا:

’’تم نے اِس سے پہلے کبھی ایسا نہیں کیا اور نہ ایسا کہا۔ سچ سچ بتاؤ، کیا معاملہ ہے؟‘‘

پہلے تو خاتون گھبرائی، ہچکچائی، لیکن پھر اُس نے شیخ بہائیؒ کی نصیحت اپنے شوہر سے من و عن بیان کردی۔

واعظ سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحوں کے بعد کہنے لگا: ’’بحمداﷲ میرا شافی علاج ہوچکا ہے۔ آج کے بعد میں شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔‘‘

اُنھوں نے واقعاً سچے دل سے تائب ہوکر جب محراب و منبر سے وعظ کیا، تو اﷲ رحمن و رحیم کے فضل و کرم سے رسول اﷲ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل ایسی تاثیر پائی کہ لوگ حیران رہ گئے۔ وہ خود بھی حیران ہوئے اور اﷲ کی بارگاہ میں شکرانے کے نفل ادا کیے۔

ایک دن شیخ بہائیؒ پھر اُن کی مجلسِ وعظ میں تشریف لائے، تو کیا دیکھا کہ ربُّ العزت کی عطا ئے خاص کے نتیجے میں اور چشمِ کرمِ رسالت مآب ﷺ کی بہ دولت نہایت پُرتاثیر تقریر کررہے ہیں۔ بعد میں اُن واعظ نے شیح بہائیؒ کی نورانیت اور معنویت سے کشف کرلیا کہ یہی میری محسن ہستی ہیں۔ کہنے لگے:

’’حضور! میں آپ ہی سے علاج یافتہ ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔ جزاک اﷲ۔ اﷲ آپ کی توفیقاتِ خیر میں اضافہ فرمائے۔‘‘

معلوم ہُوا تحریر و تقریر میں اثر اور تاثیری خصوصیات درحقیقت سیرت و کردار کی بلندی سے عبارت ہیں۔

اور اب اِس مختصر سے مضمون کے آخر میں بشر حافی کا معروف واقعہ آپ قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کرتا چلوں۔ ’’حافی‘‘ پیدل چلنے والے کو کہتے ہیں۔ ان کے متعلق یہ روایت مشہور ہے کہ ان کے گھر میں ساز و آلاتِ موسیقی کے ساتھ رقص و سُرور کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔

ایک مرتبہ حضرت امام موسیٰ کاظمؓ  کا اُس مکان کے قریب سے گزر ہوا، تو نامناسب آوازیں آپ کو سُنائی دیں۔ آپ نے گھر سے نکلنے والے ایک فرد سے پوچھا:

’’یہ کس کا مکان ہے؟‘‘

بتایا گیا: ’’یہ ایک رئیس و مالک کا مکان ہے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا:

’’واقعی یہ آزاد بندے کا مکان ہے، اگر اﷲ کا غلام ہوتا تو ایسا ہرگز نہ کرتا۔ اپنے مالک کی ناراضی کا خیال کرتا۔‘‘

بشر کی کنیز نے جاکر اُس سے یہ بات کہہ دی۔

حضرت امام موسیٰ کاظمؓ کی اِس بات کا اُس کے دل پہ ایسا اثر ہوا کہ وہ فوراً بھاگم بھاگ برہنہ پاؤں آیا۔ امام ؓسے وسط راہ میں معافی مانگی۔ اور یوں راہِ حق و صداقت پر واپس آگیا اور صادقین، سچوں کے ساتھ ہوگیا اور بقیہ تمام زندگی اِسی راہ پر بسر کی اور ہمیشہ ننگے پاؤں رہا تاکہ نصیحت یاد رہے۔


%d8%af%d9%84%d9%90-%d9%85%d8%b1%d8%af%db%81-%d8%af%d9%84-%d9%86%db%81%db%8c%da%ba-%db%81%db%92%db%94%db%94%db%94%db%94%db%94

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *