اس کے بعد کیا ہوگا؟

0

میں نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیاتھا کہ آزادی کے بعد ہمیں جو پاکستان ملاتھا وہ ایک دونہیں بلکہ کئی حوالوں سے اس دور کے دیگر نو آزاد ملکوں کے مقابلے میں کافی بہتر تھا۔

برطانیہ نے ہندوستان پر تسلط برقرار رکھنے کے لیے مختلف ادارے بنائے تھے اور ایسا بنیادی ڈھانچہ ورثے میں چھوڑ کر گیا تھا جسے ہم اپنے قومی مفادات کے تناظرمیں مزید بہتر اور ترقی یافتہ بنا سکتے تھے۔

یہ کام ہم نے نہیں کیا، جب کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے آزادی کے بعد کی کئی دہائیوں تک سخت قوم پرست معاشی، سیاسی، سماجی اور انتظامی پالیسیوں پر عمل درآمد کیا جس سے وہاں کے عوام کو مشکلات اور محرومیاں بھی جھیلنی پڑیں لیکن آخر کار مشکل کا دور بتدریج کم ہونے لگا اور آج یہ ملک دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ دوسری جانب ہم 75 سال بعد بھی یہ طے نہیں کر سکے ہیں کہ ہمارے قومی سفر کی سمت کیا ہوگی۔

آزادی کے بعد ہم نے خود کو امریکا اور مغرب کی جھولی میں ڈال دیا۔ مغربی بلاک نے ہمیںاپنے عالمی اور علاقائی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ انھیں ایسا کرنا بھی چاہیے تھا۔ کوئی بڑا اور طاقتور ملک کسی غریب اور پس ماندہ ملک کے عشق میں گرفتار نہیں ہوتا۔ آپ اس سے مدد مانگتے ہیں،اس کے مفاد میں ہوتا ہے تو وہ کچھ دینے پر رضا مند ہوجاتا ہے ، مفاد نہ ہو تو کوئی ترقی پذیر ، غریب ملک جتنی بھی درخواست کرے، اسے کوئی مالی یا فوجی مدد نہیں ملتی ۔

بھوٹان،نیپال اوربرما سمیت ایشیاء افریقہ اور لاطینی امریکا کے بے شمار ملک ہیں جن کی مدد کرنے پر کوئی امیر ملک تیار نہیں ہوتا۔ہم نے مغربی بلاک میںجانے کافیصلہ کیا تو ہمیں بھر پور انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔آزادی کے فوراً بعد ہماری درخواست پر کروڑوں ڈالر کی معاشی اور فوجی امداد فراہم کردی گئی۔

اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ پاکستان ،امریکا اور اس کے حلیفوں کو بہت پسند تھا بلکہ ہمارا جغرافیائی محل و قوع ایسا تھا جس نے ہمیں نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی لحاظ سے بھی بڑا اہم ملک بنا دیا تھا۔ہندوستان جو سو شلسٹ نظر یات کی طرف جھکاؤرکھتا تھا،ابتدائی دور میں چین اور اس کے بعد مغرب مخالف سوویت بلاک کے زیادہ قریب ہوگیا، اگر وہ سوویت مخالف مغربی بلاک بھی جانے کا فیصلہ کرتا تو ہماری حیثیت اتنی اہم نہیں رہتی ۔ چین کے سوشلسٹ انقلاب سے امریکا پریشان تھا، سوویت یونین پوری دنیا بالخصوص ایشیا میں اپنے اثر و رسوخ کوبڑھا نے کے لیے بہت سرگرم تھا اور وہ قومی آزادی کی جنگوںکی بھر پور مدد کررہا تھا ۔ آزادی کی جنگیں مغرب کے استعماری ملکوں کے خلاف لڑی جارہی تھیں۔

امریکا آزادی کی تحریکوں کے خلاف تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ یہ تحریکیں کامیاب ہوگئیں تو نو آزادممالک امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی سیاسی اور معاشی بالا دستی کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ان حالات میں، جب ہم نے امریکا کی جانب دوستی کا باتھ بڑھایا تو اس نے بڑی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ ہمارے لیے مالی اور فوجی امداد کے دروازے کھل گئے، گندم آنے لگی اور ہم نے اونٹوںپر ’’تھینک یو امریکا‘‘ کے پوسٹر لٹکا کر اپنی زرعی اور غذائی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔

یہ وہ دور تھا جب امریکا تیسری دنیا میں موجود اپنے حلیف ملکوں میں فوجی آمریتوں اور بادشاہتوں کو زیادہ پسند کرتا تھا۔ ان ملکوں کے عوام چونکہ امریکا اور استعمار مخالف تھے ،لہٰذا جمہوری حکومتوں کو حوصلہ افزائی کا ’’خطرہ‘‘ مول نہیں لیا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں بھی امریکا اور مغربیٖ ممالک نے اسی حکمت عملی پر کام کیا ۔

کوئی وزیر اٖعظم اپنی میعاد پوری نہیں کر سکا، اس کے بر عکس فوجی حکمرانوں نے ایک دو نہیں بلکہ دس دس سال بڑے جاہ و جلال سے ملک پر حکمرانی کی۔ ہر فوجی آمریت کے دور میں امریکا نے اربوںڈالر کی مدد کی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض دلوائے ، مشکل درپیش ہوئی تو قرض کی ادائیگی میں سہولت دی گئی اور انھیں ری شیڈول کر دیا گیا۔ عوام کے دباؤ سے مجبور ہو کر اگر کبھی جمہوری حکومت کو اقتدار دیا گیا تو اسے ہمیشہ مختلف طریقوں سے کمزور اور غیر مستحکم رکھا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی جمہوری یا سویلین حکومت کی امریکا نے فیاضی سے مالی مدد نہیں کی بلکہ سچ تویہ ہے کہ جب بھی کسی فوجی آمر کی جانب سے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا گیا تو اس کا خیر مقدم کیا گیا اورتکلفاً اس جملے پر اکتفا کیا گیا کہ پاکستان کو جمہوری راہ پر جلد واپس آجانا چاہیے۔

منتخب حکومتوں کے وزرائے اعظم کو پھانسی دی گئی ، انھیں گرفتار اور جلا وطن کیا گیا، ان پر غداری کے مقدمات چلائے گئے لیکن امریکا کی جانب سے فوجی آمروںکے انتہائی غیر جمہوری اقدامات کی کبھی شدید مذمت یا مزاحمت نہیں کی گئی،پاکستان پر جمہوری ادوارمیں امریکا کی طرف سے معاشی پابندیاں لگائی گئیںاور آئی ایم ایف کے ذریعے شدید دباؤ ڈالا جاتا رہا۔

سرد جنگ کے دور میں امریکا نے مذکورہ پالیسی پر سختی سے عمل کیا تا ہم ،سوویت بلاک کے انہدام کے بعد اس کی ترجیحات میں تبدیلیاں ہونے لگیں، اسی دوران 9/11 کا واقعہ رونما ہواجس پر امریکا نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ اس واقعے کا گہرا تعلق افغانستان میں قائم طالبان حکومت سے تھا، اس لیے پاکستان ایک بار پھر امریکا کے لیے اہم ہوگیا ۔

جنرل مشرف نے ایک منتخب حکومت کو فوجی بغاوت کے ذریعے ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھالیکن 9/11 کے بعد وہ امریکا کے منظور نظر بن گئے۔ ایک بار پھر اربوںڈالر کی برسات شروع ہوگئی ۔ڈالر روپے میں تبدیل ہو کر بینکوں کے ذریعے منڈی میں آگئے اور پاکستان میں ایک جعلی خوش حالی نظرآنے لگی ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اربوں ڈالر دے کر ہمیں افغان جنگ کا نوالہ بنایا ، جب یہ جنگ جیت لی گئی تو امریکا کی ترجیحات کے ساتھ اس کافیاضانہ رویہ بھی تبدیل ہوگیا۔

ہماری معیشت کا پورا انحصار 75 برس سے چونکہ امریکا اور مغرب پر تھا لہٰذا اب کسی بیرونی سہارے کے بغیر کھڑا ہونا ہمارے لیے مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا ضرورت اور مجبوری بن گئی ہے ، ایک دور تھاجب امریکا کے کہنے پر آئی ایم ایف اور عالمی بینک بازو پھیلائے ہمارا استقبال کیا کرتے تھے اب امریکا سے تعلقات میں سرد مہری ہے اس لیے ہمارے وزیر اعظم کو آئی ایم ایف کے سربراہ سے ذاتی طورپر ملاقات کر کے مدد کی التجا کرنی پڑتی ہے۔

اس کے بعد امریکی سفیر سے ملنا پڑتا ہے اور امریکی حکومت سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے نرم رویہ اختیار کرنے کی سفارش کرے۔آئی ایم ایف کاحالیہ پرو گرام تو کسی نہ کسی طور پر مکمل کر لیا گیا اور اس کی سیاسی قیمت بھی حکومت کو چکانی پڑی ۔مالی بحران اتنا شدید ہے کہ فوری طور پر ایک اور پروگرام کی ضرورت ہے جو سخت شرائط کے بعد مل جائے گاجس سے عوام اور حکومت دونوں کو بد ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے دوسرے پروگرام کی تکمیل کے بعد کیا ہوگا؟ کیاہم ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجا ئیں گے جن پر 75برس سے عمل پیرا ہیں؟ اس سوال پر کسی اور کالم میں گفتگو ہوگی۔


%d8%a7%d8%b3-%da%a9%db%92-%d8%a8%d8%b9%d8%af-%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%d9%88%da%af%d8%a7%d8%9f

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *