ویل ڈن ٹیم ہاکی پاکستان

0

ملک میں کرکٹ کا عروج اچھی بات ہے لیکن ہاکی کے زوال پر تشویش بھی نظر آنی چاہیے۔ فوٹو: فیس بک

ملک میں کرکٹ کا عروج اچھی بات ہے لیکن ہاکی کے زوال پر تشویش بھی نظر آنی چاہیے۔ فوٹو: فیس بک

پاکستان ہاکی ٹیم اذلان شاہ ٹورنامنٹ میں 13 برس کے بعد فائنل میں پہنچی، فائنل میں جاپان کے ساتھ مقابلہ ہوا۔ پاکستانی ٹیم نے فائنل میچ میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا،مقررہ وقت کے دوران میچ دو دو گول سے برابر رہا، معاملہ پینلٹی اسٹروک تک گیا، قسمت جاپان کے ساتھ تھی۔

جاپانی کھلاڑیوں نے پنلٹی اسٹروک مرحلے میں فتح اپنے نام کرلی۔ لیکن ٹیم پاکستان نے جاندار اور بھرپور انداز میں کھیل کا مظاہرہ کرکے پاکستانی عوام کے دل فتح کر لیے۔ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کی ہاکی ٹیم کسی بڑے ٹورنامنٹ میں فائنل تک پہنچی ہے، جو یقیناً ہاکی لورز کے لیے امید اور حوصلے کی بات ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ٹورنامنٹ کے دوران شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائنل تک رسائی حاصل کی، جاپان کے خلاف بھی پاکستانی ٹیم نے فائنل میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔

قومی ہاکی ٹیم نے اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں جس شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا، اس پر قوم میں خوشی اور اطمینان کے جذبات پیدا ہوئے ہیں، نوجوان ہاکی پلیئرز بھرپور جذبے، لگن اور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترے اور کامیابیاں سمیٹتے ہوئے فائنل تک کوالیفائی کرلیا۔

ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے، پاکستان چار بار ہاکی کا ورلڈ چیمپئن رہ چکا ہے۔ ہاکی کا ورلڈ کپ ہو، چیمپئن ٹرافی ٹورنامنٹ ہو یا ایشیاء کپ کے مقابلے ہوں، ماہرین پاکستان کو فاتح قرار دے کر صرف سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن کس کی ہوگی، اس پر بات کیا کرتے تھے۔

کسی بھی قوم کی پہچان تہذیب و ثقافت اور کھیلوں سے ہوتی ہے، ماضی قریب میں پاکستان ہاکی ٹیم کا دنیا میں نمایاں مقام تھا لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر یہ درجہ بتدریج کم ہوتا چلا گیا، گزشتہ کئی دہائیوں تک ساری دنیا پر پاکستانی ہاکی ٹیم کا راج رہا، ورلڈکپ، اولمپک، چیمپئنز ٹرافی، ایشین گیمز ہر جگہ پاکستانی ٹیم چھائی رہی۔ ریڈیو کمنٹری کے زمانے میں جس ہوٹل یا دکان میں کسی ہاکی میچ کی کمنٹری سنائی دے رہی ہوتی، وہاں مجمع لگ جاتا۔ عوام کا شوق اور جوش دیدنی ہوتا۔

ہاکی کے بڑے میچ سینما گھروں میں دکھائے جاتے، جہاں کھڑکی توڑ رش ہوتا۔ ٹی وی کا دور آیا تو میچ کے دن اسکول، کالج اور دفتروں میں حاضری کم ہوجاتی۔اہم ہاکی میچ کے دوران پاکستانیوں کے دل اپنے کھلاڑیوںکے ساتھ ساتھ دھڑکتے تھے۔ یہ کھیل محض نام کا قومی کھیل نہ تھا بلکہ قوم کا مقبول ترین کھیل تھا۔ پاکستان میں ہاکی کے بے شمار نامور کھلاڑی پیدا ہوئے مخالف ٹیم کو بدحواس کرنے میں جن کا نام ہی کافی ہوتا تھا۔

60 کی دہائی سے 90کی دہائی تک ہاکی ٹیم میں برق رفتاری اور ڈاجنگ ڈربلنگ کے ایسے منظر دکھائی دیتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ صلاح الدین اور سمیع اﷲ سمیت کئی ایسے کھلاڑی تھے جو مدمقابل ٹیم کے پنلٹی کارنر ماسٹر کو ہٹ لگانے سے پہلے ہی گیند پر پہنچ جاتے ، یوں پنلٹی کارنر ضایع ہوجاتا۔ ہاکی کے عظیم کھلاڑیوں میں توقیر ڈار، نصیر بندہ،رشید الحسن، رشید جونیئر، منظور جونیئر، شہناز شیخ، اختر رسول، صلاح الدین، سمیع اﷲ، کلیم اللہ، حسن سردار، قاسم ضیاء، شہباز سینئر، طاہر زمان، سہیل عباس اور دیگر شامل ہیں۔

پاکستانی کھلاڑیوں کی کوچنگ کی وجہ سے وہ ملک بھی ہاکی کھیل میں اس قدر مہارت حاصل کرگئے کہ آج وہ صف اول کی ہاکی ٹیمیں رکھتے ہیں۔ قومی کھیل کے زوال کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی اس کھیل سے لاتعلقی ہے۔ ہاکی سب سے مقبول کھیل ہوا کرتا تھا، لیکن سرکار نے ایسے کھیلوں کی سرپرستی کی، جو مخصوص طبقے کی اجارہ داری میں تھے۔

ماضی میں انٹراسکولز ہاکی ٹورنا منٹ کا اہتمام ہوتا تھا، پھر انٹر کالجیٹ مقابلے ہوا کرتے تھے ، ہر کالج اور یونیورسٹی تک ہاکی ٹیمیں ہوتی تھیں۔ حکومت ہاکی پلیئر کو ملازمت دیتی تھی، نوجوان کھلاڑیوںکی تربیت کے لیے ٹریننگ کیمپ لگائے جاتے تھے،سرکاری محکموں کی ٹیمیں ہوتی تھیں۔ کسٹمز، پی آئی اے اور بینکس کی ہاکی ٹیمیں پاپولر ہوا کرتی تھیں لیکن حکومت کی بتدریج عدم دلچسپی ، فنڈز کی کمی ، ہاکی کھلاڑیوں کا قلیل معاوضہ ، جسی وجوہات کے باعث قومی کھیل زوال کا شکار ہونا شروع ہوا۔

اولمپکس میں ٹائٹل جیتنے کی زیادہ تر توقعات اور بڑی امیدیں قومی کھیل ہاکی سے رہی ہیں اور بلامبالغہ ہم نے ماضی میں ہاکی کی دنیا پر حکمرانی کی ہے لیکن زوال کی انتہا بھی دیکھنے میں آئی۔پاکستان کئی عالمی ٹورنامنٹس کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کر سکا۔ سوال یہ ہے کہ قومی کھیل کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے؟ دراصل ہاکی میں گرتے ہوئے معیار کی وجہ میں کئی عوامل ہیں، کتنی بھی اکیڈمی کھولیں جب تک گراس روٹ لیول پر کام نہیں ہوگا اس ہی طرح کا حال رہے گا۔

ہاکی کی بربادی 25 سال پہلے سے ہے، انفرا اسٹرکچر کمزور ہوچکا ہے، سیاست بڑھ چکی ہے، کھیل پر توجہ کم ہوگئی ہے، پہلے جو کامیابیاں ملتی تھی اس کی وجہ ڈومیسٹک انفرا اسٹرکچر کا مضبوط ہونا تھا۔ اس دور میں ہم اولمپک چیمپئین تھے، ورلڈ چیمپئین تھے، ایشین چیمپئین تھے۔ ٹیلنٹ بہت تھا، انڈر 16، انڈر 18اور انڈر 20کھلاڑی دستیاب ہوتے تھے، ہر سینئر کھلاڑی کا متبادل موجود رہتا تھا۔ پھر یہ انفرا اسٹرکچر برباد ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان ہاکی عالمی درجہ بندی میں نچلے نمبرز میں جاچکی ہے۔

پاکستان کے پاس گنے چنے کھلاڑی رہ گئے ہیں انھی کو ادھر ادھر گھماتے رہتے ہیں، جب تک ہاکی کا گراس روٹ اسٹرکچر بحال نہیں ہوگا، ڈومیسٹک ٹورنامنٹس زیادہ سے زیادہ نہیں ہوںگے، ہاکی پلیئرز کا معاوضہ کرکٹ پلیئرز کے برابر ہونا چاہیے۔ اگر ہم نے کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے تو ہمیں اسکول لیول پر توجہ دینا ہوگی۔ خصوصاً پنالٹی کارنر،گول کیپینگ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ کھلاڑیوں کی فٹنس پر بہت زیادہ توجہ دینا پڑے گی، کیونکہ ہماری فٹنس عالمی معیار کی نہیں ہے۔

ہمیں گراس روٹ لیول انفرااسٹرکچر بحال کرنا ہوگا، تعلیمی اداروں اور ہاکی کلبوں پر کام کرنا چاہیے جب تک ہم اس پر کام نہیں کریں گے، ہمارے مسائل جوں کا توں رہیں گے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اسکول میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کو کالج میں داخلے مل جایا کرتے تھے، اسی طرح کالج کی ٹیم کے لڑکوں کو پروفیشنل کالجز و یونیورسٹیز میں داخلے مل جاتے تھے۔

فیڈریشن کی مالی حیثیت، اسپانسرز کا نہ ہونا اور حکومت کی عدم دلچسپی نے میدانوں سے ہاکی کاکھیل ہی غائب کردیا ہے۔ ہاکی کے کئی اچھے اچھے نوجوان کھلاڑیوں کی مالی پوزیشن کمزور ہے۔ حال ہی میں پاکستان ہاکی فیڈریشن نے قومی ہاکی کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دیا ہے جو ایک خوش آیند سلسلہ ہے۔

اس سے کھلاڑیوں کو فکر معاش کم ہو گی اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ اسکولوں اور کالجوں اور اداروں میں ہاکی ٹیمیں بننا بند ہوگئیں۔ جب تک مالی معاملات پر توجہ نہیں دی جاتی، اس وقت تک ہاکی کے کھیل میں نوجوانوں کی دلچسپی پیدا نہیں ہوسکتی ،موجودہ صورتحال میں اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے طالب علم ہاکی کیوںکھیلیں، کیونکہ اگر کوئی طالب علم محنت کرکے قومی ٹیم تک بھی پہنچ جاتا ہے تو اس کی مالی پوزیشن بہتر نہیں ہوسکے گی ۔

ہالینڈ، جرمنی، اسپین، آسٹریلیا اور انگلینڈ میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں ہر اسٹوڈنٹ کو لازمی تین گیمز میں حصہ لینا ہوتا ہے، اس کو آپ ان کی کامیابی کی ابتدا کہہ سکتے ہیں۔ آج جاپان اورجنوبی کوریا،حتیٰ کہ چین کی ہاکی ٹیم اچھے کھیل کا مظاہرہ کررہی ہیں۔

ملک میں کرکٹ کا عروج اچھی بات ہے لیکن ہاکی کے زوال پر تشویش بھی نظر آنی چاہیے۔کئی کھیل ایسے ہیں، حکومت اور ادارے ان پر توجہ دیں تو پاکستان کھیل کی دنیا کا اہم ملک بن سکتا ہے، کبڈی، والی بال اور فٹ بال میں ہمارا ٹیلنٹ بے مثال ہے، تھوڑی توجہ سے پاکستان ان کھیلوں میں عالمی شہرت حاصل کرسکتا ہے۔

ان کھیلوں کے مقابلوں کرانے سے کئی روزگار ترقی کرسکتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ تمام کارپوریٹ شعبوں کو ہاکی کے فروغ کے لیے متحرک کرے، حکومت بھی ہاکی کے فروغ کے لیے اقدامات کرے گی، ہاکی سپر لیگ کا آئیڈیا بہت اچھا ہے، جس طرح کرکٹ سپر لیگ ہوتی ہے، اسی طرح ڈویژن اور پھر شہروں کی سطح پر بھی ہاکی کو فروغ ملنا چاہیے، نجی شعبہ بھی ہاکی پر توجہ دے، سرکاری ٹیلی ویژن ہاکی مقابلے براہ راست دکھائے، ہاکی لیجنڈز کو کمنٹیٹرز، ٹرینرز اور کوچز کے طور پر ایڈجسٹ کرایا جائے ، ہاکی کے کھیل کو حکومت کی بھرپور سرپرستی حاصل ہوجائے تو پاکستان ہاکی ٹیم کے سنہرے دور کی واپسی ممکن ہوسکتی ہے۔


%d9%88%db%8c%d9%84-%da%88%d9%86-%d9%b9%db%8c%d9%85-%db%81%d8%a7%da%a9%db%8c-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *