کوچۂ سخن – ایکسپریس اردو

0

غزل
بغضِ واعظ کے جو فتوے کی سند ہے، رد ہے
اس میں ہر زیر زبر پیش کہ شد ہے، رد ہے
تیرے لہجے کا تکبر ہو گوارا کیسے
نامور ہے تُو کہ چاہے ترا قد ہے رد ہے
اس فسانے میں حقیقت کا گماں تک بھی نہیں
یار اس طرزِ تخیل کی جو حد ہے رد ہے
میں کسی کی بھی وکالت نہیں کرنے آیا
میرے احباب میں کوئی بھی جو بد ہے، رد ہے
کونسی چیز ہے خالص مجھے اتنا تو بتا
’جس طرف سے بھی ملاوٹ کی رسد ہے، رد ہے‘
تشنگی جسم کے صحرا کی مٹاتا بھی نہیں
تیرے دریاؤں کے پانی میں جو مد ہے رد ہے
میں نے ہر ایک سے تجھ کو ہی مقدم سمجھا
دلِ ارشدؔ میں اگر تیرا حسد ہے، رد ہے
(ارشدمحمودارشد۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل
کیسا نائب ہوں؟ کہ رتبہ بھی نہیں ہے میرا
تجھ سے اِس بات کا جھگڑا بھی نہیں ہے میرا
اے مرے مولا! تری اتنی بڑی دنیا میں
چار چھے مرلے کا حصہ بھی نہیں ہے میرا؟
اُس کو سوچوں تو یہی سوچنے لگ جاتا ہوں
اُس نے جاتے ہوئے سوچا بھی نہیں ہے میرا
جتنا منسوب کیا مجھ سے سبھی نے اُس کو
اُتنا وہ شخص تو لگتا بھی نہیں ہے میرا
اک ملاقات، اور اک اُس کی جبیں پر بوسہ
اِس سے آگے کا ارادہ بھی نہیں ہے میرا
(منیر رانجم۔ ساہیوال، سرگودھا)

۔۔۔
غزل
آ جائیں کام اس لیے گن کے بہاؤ میں
پھینکے ہیں میں نے کتنے ہی تنکے بہاؤ میں
مفہوم بے بسی کا ذرا اُن سے پوچھیے
دریا بہا کے لے گیا جن کے بہاؤ میں
سیلاب ہٹ رہا ہے پہنچ کر مقام سے
آنسوگرے ہیں دوستا کن کے بہاؤ میں
ٹھہراؤ مت کسی کوان آنکھوں کا ذمہ دار
شامل تمہارا ہاتھ ہے ان کے بہاؤ میں
کچھ نامراد لوگوں نے میرے تمام خواب
کل شب بہائے مجھ سے ہی چھن کے بہاؤ میں
(اسد رضا سحر۔ احمد پورسیال، جھنگ)

۔۔۔
غزل
ترے احسان پر یہ ضرب ہے کاری ہماری
ہمارے زخم کو کافی نمک دانی ہماری
نہیں ہوں جل پری، لڑکی ہوں، قسمیں کھا رہی ہے
مگر جاتی نہیں ہے پھر بھی حیرانی ہماری
کوئی بنجر زمیں بارش کی ہو محتاج جیسے
ترستی ہے ترے ہونٹوں کو پیشانی ہماری
ہمارے بعد اُسے پڑتے ہیں پاگل پن کے دورے
کہیں نہ مار دے خود کو وہ دیوانی ہماری
ذرا سی بس خوشامد سے تمہارے ہو گئے ہم؟
کہاں آسان اتنی بھی میاں یاری ہماری
پہاڑوں پر شجر کٹتے ہیں آئے روز لیکن
بھرے بازار میں بکتی نہیں آری ہماری
بھلے دن تھے کہ خود پر اختیار اپنا نہیں تھا
ترے ہاتھوں میں ہوتی تھی نگہبانی ہماری
(محمد عمر۔ چارسدہ)

۔۔۔
غزل
ذوق میں کیا خوش جمالی ہو
ہر طرف جب خشک سالی ہو
اے تعلق توڑنے والے!
کیا عداوت میں مثالی ہو؟
کرچیاں بھی لو حفاظت میں
اب نہ پھر سے بے خیالی ہو
آنکھ کو کاسہ بناؤ ناں
تم محبت کے سوالی ہو
روشنی درکار تھی اُس کو
کیا پتہ بستی جلا لی ہو
پھر جیے جانا مسلسل، گر
دن سنہرا،رات کالی ہو
کیسی چڑ ساگرؔ پرندوں سے
سیپ جب خود سے اچھالی ہو
(ساگر حضورپوری۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل
یہ آگہی کی مسافت یہ ہاؤ ہو کی تھکن
ترے حضور خدایا یہ جستجو کی تھکن
کہیں ملے گا تو بے ساختہ گلے لگ کر
اتار دیں گے سمندر میں آب جو کی تھکن
سمیٹ پائیں گی بانہیں وجودِ حرص و ہوس
کہاں سہارے گی منزل بھی رنگ و بو کی تھکن
بلیک ہول بنے ہیں تمھارے ہجر میں ہم
سمٹتی آتی ہے ہم میں چہار سو کی تھکن
میں تیرے ہجر سے شرمندہ ہوں کہ اب مجھ میں
بھری ہوئی ہے کسی اور آرزو کی تھکن
کبھی تُو لوٹ کے آجا سمیٹنے کے لئے
جہاں میں پھیلی ہوئی اپنے بے نمو کی تھکن
ہمیں ہماری اداسی ملی تھی رہ چلتے
ہم اس پہ لاد کے لے آئے گفتگو کی تھکن
(بشریٰ شاہ ۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
جانے والے جا مگر یہ سوچ لے، ہونگے نہیں
اِس سفر میں واپسی کے راستے ہونگے نہیں
اُس سے مل کر لوگ ہوں گے کشمکش میں دیر تک
یوں لگے گا مل چکے ہیں پر ملے ہونگے نہیں
تیری مرضی جس جگہ جی چاہے جتنا خرچ کر
میرے جیسے پھر میسر دوسرے ہونگے نہیں
تیرے جانے سے یہی اک مسئلہ ہوگا ہمیں
زندگی میں زندگی کے ذائقے ہونگے نہیں
بچ کے رہنا کچھ درندے آ گئے ہیں شہر میں
دیکھنے میں شکل سے وہ بھیڑیے ہونگے نہیں
اُس سے اتنا کہہ کے میں نے کال اُس کی کاٹ دی
یاد ہے؟ یہ طے ہوا تھا رابطے ہونگے نہیں
(فیصل کاشمیری ۔گوجرانوالہ، وزیر آباد)

۔۔۔
غزل
اس واسطے پوچھا ہے کہ کب تک نہیں رہنا
میں ذہن بنا لوں مجھے جب تک نہیں رہنا
سورج نکل آنا ہے ہر اک شاخ طلب پر
اور دل میں مرے شکوۂ شب تک نہیں رہنا
اک دن تجھے احساس یہ ہونا ہے کہ ہم ہیں
ہم نے مگر اس روزِ عجب تک نہیں رہنا
اک روز یہ حالات بدل جائیں گے میرے
پر اس نے مرے ساتھ تو تب تک نہیں رہنا
تم نے بھی مرا نقش مٹا دینا ہے دل سے
اور میرے پلٹنے کا سبب تک نہیں رہنا
اس نے اسی انداز میں کہنا ہے کہ کیا ہے
پھر یاد مجھے بات کا ڈھب تک نہیں رہنا
(احمداویس۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
ہماری آنکھ میں کسی طرح کا نم نہیں رہا
تمھارا غم ملا تو ہم کو کوئی غم نہیں رہا
عطا ہے بے شمار ہم پہ فضل بے شمار ہے
مگر یہ بات ہے کہ ہم پہ وہ کرم نہیں رہا
ہماری روح کے سبھی کواڑ بند ہو گئے
بدن سے کوئی سلسلہ بھی اب بہم نہیں رہا
جسے تم آزما سکو، ہمارا دل دکھا سکو
شمار کر کے دیکھ لو تو اک ستم نہیں رہا
ہمارے پاس اور کچھ نہیں تو ایک دوست ہے
ہمارے پاس بس یہی تھا یہ بھرم نہیں رہا
عجب نہیں کہ کل کوئی خدا کا روپ دھار لے
جسے بھی دیکھ لیجیے،فقط صنم نہیں رہا
ہے آفتاب کس لیے قدم قدم پہ روشنی
وہ مہ جبیں اگر تمھارا ہم قدم نہیں رہا
(آفتاب غنی منعم۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
اپنا چہرہ دیکھنا مہنگا پڑا
یعنی ہم کو آئینہ مہنگا پڑا
ہر کوئی پتھر اٹھائے آ گیا
گھر ہمیں یہ کانچ کا مہنگا پڑا
بستیوں کی بستیاں غرقاب ہیں
بارشوں کا سلسلہ مہنگا پڑا
دوستانہ صاحبانِ وقت کا
ایک مفلس کو سدا مہنگا پڑا
دن کو بے چینی تو شب کو رتجگا
پیار تیرا بے وفا مہنگا پڑا
بیچ دریا کے ڈبو ڈالا اسے
اے گھڑے ناتا ترا مہنگا پڑا
کھیل سمجھے عشق کو حامدؔ مگر
ہم کو یہ سودا بڑا مہنگا پڑا
(سید حامد حسین شاہ۔ مانسہرہ)

۔۔۔
’’تلاش‘‘
میں ادب شناس وہ شخص ہوں
جسے اُس نگر کی تلاش ہے
دو سخن فہم جہاں جی سکیں
جہاں آبشار ہوں ہر طرف
جہاں جھیل ،ندیاں، گلاب ہوں
جہاں مور، پنچھی ،عقاب ہوں
جہاں ہمسفر مجھے حکم دے
تو گھسیٹ لاؤں میںکہکشاں
جہاں دو بدن کا ملاپ ہو
تو خوشی سے جھومے گلہریاں
میں سفید پوش پہاڑ میں
ہیرے سے محل بنا سکوں
میں جمالِ یار سے ہر طرف
نرگس کے پھول کھلا سکوں
مجھے دیکھنی ہے جہان میں
تیری نعمتوں کی جھلک دکھا
مجھے کر عطا کوئی مہ جبیں
میرا ساتھ دے اے حسیں خدا!
(معروف شاہ۔ اسکردو)

۔۔۔
غزل
میری یادوں کا یہ ستارہ
من کا میرے راج دلارا
میں بھی پاگل ہو جاتا ہوں
جب سے تم سے ہوا کنارہ
سب کچھ دے کر چھین لیا ہے
بے بس ہوا تھا میں بھی خدارا
صدمہ دے کر بچھڑا تھا وہ
اس کا جانا تھا ہی خسارہ
بستی بستی میں پھرتا ہوں
جیون بھی ہے ایک غبارہ
آپ کو پانا تھا بھی میں نے
ساجد ؔکو بھی ہوا اشارہ
(محمد نواز ساجد قریشی۔ موضع حسوکے، فیصل آباد)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی


%da%a9%d9%88%da%86%db%82-%d8%b3%d8%ae%d9%86-%d8%a7%db%8c%da%a9%d8%b3%d9%be%d8%b1%db%8c%d8%b3-%d8%a7%d8%b1%d8%af%d9%88

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *