ماؤں کو اپنی زندگی بھی جینے دیجیے!

0

بطور انسان ان کے کچھ خواب تکمیل چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

بطور انسان ان کے کچھ خواب تکمیل چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ہر سال مئی کی دوسری اتوار کو ’ماؤں کا عالمی دن‘ نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

اس دن اخبارات میں مختلف فیچر اور مضامین چھاپے جاتے ہیں اور ماؤں کے کردار اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے مگر کیا ماؤں کے لیے اتنا کرنا کافی ہے؟ کیوں کہ ماں کے وجود کا احترام کرنے کے باوجود ہم اس رتبے سے جڑے ہوئے بہت سے معاملات پر کوئی رعایت یا گنجائش دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

رب نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے، مگر اس جنت جیسے رتبے کو حاصل کرنے کے لیے اسے کن کن تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے، بہ ظاہر تو جسمانی تکالیف وقتی طور پر دور ہوجاتی ہیں، مگر کوئی معمولی بیماری بھی تمام جسمانی درد پھر سے جگا دیتی ہیںمگر مائیںچہرے پر مسکراہٹ سجا کروہ برداشت کر لیتی ہیں۔

معمولی نزلہ اور زکام کی کوئی اہمیت نہیں مگر بہت سی خواتین ماں بننے کے بعد اس کے نتیجے میں ہونے والی جسمانی کمزوری کی بنا پر مسائل سے دوچار رہتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ حالات کے ساتھ نبردآزما رہتی ہیں۔ وہ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ شرمندگی ضرور محسوس کرتی ہیں اور اس کو چھپانے کے لیے اپنے اعصاب کو قابو میں رکھتی ہیں۔

مائیں گھر کے نظام کو چلاتی ہے اگر وہ آرام کرنا بھی چاہتی ہیں تو دنیا انھیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کے آرام ان کے لیے نہیں ہے۔ آج میں یہاں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں مائیں مشینیں نہیں ہوتی ہیں انسان ہوتی ہیں، انھیں آرام کی ضرورت ہوتی ہے انھیں بھی زندگی کے پرلطف لمحوں کو گزارنے کا حق ہوتا ہے ،ان کے بھی خواب اور خواہشات ہوتی ہیں۔

اس ’’ماؤں کے عالمی دن ‘‘پر ماؤں کو انسان بنا کر پیش کریں، کوئی ایسا دیوتا نہیں کہ جسے کسی چیز کی حاجت اور خواہش نہیں ہوتی۔ انھیں جینے کا حق دے ان کے ساتھ کھڑے ہوں، وہ بچوں کو اپنی جان پر کھیل کر جنم دیتی ہیں۔

ان سے وہ محبت کرتی ہیں، مگر اگر ایک باپ کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ ہفتے کی رات دوستوں میں گزارے، کیوں کہ اس نے پورے ہفتے محنت کی ہے، تو ایک ماں نے بھی دن اور رات گھر کو سنوارنے میں صرف کیے ہیں وہ کیوں چند لمحات اپنے لیے نہیں گزار سکتی، اس کو کیوں یہ معاشرہ یوں دیکھتا ہے جیسے وہ کوئی عجب مخلوق ہو اس عجب مخلوق کو قبول کیجیے اسے بھی ایک ہی زندگی ملی ہے وہ بھی جینا چاہتی ہے، اسے بھی جینے دیجیے۔


%d9%85%d8%a7%d8%a4%da%ba-%da%a9%d9%88-%d8%a7%d9%be%d9%86%db%8c-%d8%b2%d9%86%d8%af%da%af%db%8c-%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%ac%db%8c%d9%86%db%92-%d8%af%db%8c%d8%ac%db%8c%db%92

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *