انقرہ کا قلعہ، گڑیوں کا بازار

0

(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ گیارہواں پڑاؤ)

انقرہ کاسل کو ترک زبان میں Ankara Kalesiکہتے ہیں۔ یہ کاسل (قلعہ) آٹھویں صدی قبل مسیح میں تعمیر ہوا اور اس کو دوبارہ 278 قبل مسیح میں Galatians   نے تعمیر کیا۔ اس کے بعد رومن بازنطنیہ اور سلجوق اور اس کے بعد خلافت کے دور میں بھی اس کی تعمیر ہوتی رہی۔

انقرہ میں تاریخی اعتبار سے یہ سب سے پرانا قلعہ ہے۔ ہمارا ارادہ صبح سویرے نکلنے کا تھا۔ ہم رات کو جو روٹیاں لے کر آئے تھے چائے کے ساتھ جام لگاکر کھائیں۔ بہت مزیدار لگیں۔ بالکل شیرمال جیسا

مزا تھا۔ تیار ہوکر جب ہوٹل سے باہر آئے تو گیارہ بج رہے تھے۔ لیجیے جناب آج بھی لیٹ ہوگئے۔ میں سویرے اٹھنے کی عادی ہوں اور ہر جگہ اس اصول پر قائم رہتی ہوں مگر آج جب صبح آنکھ کھلی تو خاصا اندھیرا تھا۔ وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا حالاںکہ انقرہ میں پہلا دن خاصا آرام دہ تھا۔ باہر آکر وجہ معلوم ہوئی پورا آسمان گہرے سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہلکی سی سردی محسوس ہورہی تھی۔ اتنے سیاہ بادلوں اور سردی کے باوجود بھی بارش نہیں ہورہی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا نے موسم خوشگوار کردیا تھا۔

ہم جس علاقے میں ٹھہرے ہوئے تھے وہ خاصا سنسان تھا مگر ہم جیسے ہی ہوٹلوں والی سڑک پر آئے تو معلوم ہوا کہ سارے ہوٹل کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ لوگ ناشتے سے لطف اندوز ہورہے تھے اور ساتھ موسم بھی انجوائے کررہے تھے۔ ہم نے بھی ایک ایک کپ چائے پی اور بس اسٹاپ پر آگئے۔ ہم سمجھ رہے تھے آج زیادہ رش نہیں ہوگا مگر بس کافی رش لے رہی تھی۔ انقرہ کا تو ٹرانسپورٹ سسٹم استنبول جیسا ہی ہے۔ ہمیں بس نے انقرہ کاسل کے اسٹاپ پر اتار دیا۔

دائیں طرف تو خاصا موڈرن علاقہ تھا مگر بائیں جانب کچھ پرانی عمارتوں کے آثار تھے، لیکن یہ انقرہ کاسل نہیں تھا، اس کے لیے ہمیں خاصا اوپر جانا پڑا۔ یہ قلعہ خاصی اونچائی پر بنا ہوا ہے۔ ایک طرف تو وہی پرانی عمارت تھی۔ درمیان میں خاصی چوڑی پتھریلی سیڑھیاں تھیں۔ کم از کم سو سے کم نہیں تھیں مگر سیڑھیوں کے دوسری طرف دکانیں تھیں اور ان کے آگے ہر سیڑھی کی چوڑائی کے برابر چبوترا تھا جس پر کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ اکثر پر دکان دار بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے نظر ایک دکان پر پڑی جہاں باہر وینڈو شوکیس میں ہر طرح کے اسکارف سجے ہوئے تھے۔ مجھ سے آتے وقت لڑکیوں نے ٹرکش اسکارف کی خاص طور پر فرمائش کی تھی۔ اب جو میں دکان میں داخل ہوئی تو مختلف طرح کے اسکارف کی الماریاں بھری ہوئی تھیں۔ ایک سے ایک خوب صورت اور نفیس اور قیمتی اسکارف موجود تھا۔ معلوم ہوا تھوک کی دکان ہے جو اسکارف باہر سو لیرا کا تھا یہاں پچاس لیرا کا مل رہا تھا۔ جو ذرا کم کوالٹی کے تھے وہ اور بھی کم قیمت کے تھے۔ میں نے دونوں طرح کے کافی اسکارف لے لیے مجھے معلوم تھا یہ اچھے والے تو بہویں اور بیٹیاں پہلے ہی ہتھیالیں گی۔ ہم بھی پہلے ایسا ہی کرتے تھے جو باہر سے آتا تھا حال چال پوچھنے کی بجائے بیگ میں پہلے جھانکتے تھے کہ سب سے پہلے اچھی چیز پر حق جتالیں۔

یہ بازار صرف اسکارف کا نہیں تھا۔ ہر طرح کی دکانیں ان سیڑھیوں کے ساتھ بنی ہوئیں تھیں۔ یعنی سیڑھیاں چڑھتے جاؤ خریداری کرتے جاؤ۔ سیڑھیاں جیسے ہی ختم ہوئیں سامنے ایک چوڑی سی سڑک تھی جس پر دو طرفہ دکانیں تھیں۔ معلوم ہوا یہ قلعے کی پہلی فصیل ہے جو پہاڑی کے اطراف بنی ہوئی ہے۔ جہاں اب فصیل کے ساتھ دکانیں بنادی گئی ہیں۔ قلعہ تو یہاں سے بہت اوپر تھا۔ ابھی ہمیں بیس پچیس سیڑھیاں اور چڑھنا تھیں جہاں یہ سیڑھیاں ختم ہورہی تھیں وہاں ایک چھوٹے میدان نما پکی جگہ تھی۔ یہاں سے دائیں طرف والی سڑک اوپر جارہی تھی اور بائیں طرف والی نیچے کی طرف جارہی تھی اور جو سامنے کی سمت سڑک تھی وہ بھی اونچائی کی طرف جارہی تھی اس کے دونوں طرف فٹ پاتھ بنے ہوئے تھے جہاں بیچیں لگیں ہوئیں تھیں۔

یہاں تو ایک طرف میوزیم کی عمارت تھی جو درختوں اور پتھریلی چاردیواری سے گھری ہوئی تھی اور دوسری طرف گھنے درختوں میں گھری پہاڑی ڈھلوانیں تھیں جو سبزے اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ ان جنگلی پھولوں میں عجیب سی مہک تھی جو بہت بھلی معلوم ہورہی تھی۔ اتنا خوش گوار موسم اور ٹھنڈی ہوائیں جو اوپر آکر اور ٹھنڈی ہوگئی تھیں۔ یہ کئی ایکڑ رقبے کا میوزیم تھا۔ ہم گیٹ کے بالکل سامنے والی بیچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ پیدل بھی آرہے تھے اور اِکا دکا گاڑیاں بھی آرہی تھیں۔ کچھ میں میوزیم آنے والے سیاح تھے اور کئی ایک گاڑیاں قلعہ جانے والی سڑک پر چلی گئیں جہاں درختوں سے گھری ایک پگڈنڈی نما سڑک اور تھی، اس کے سامنے بیریئر لگا ہوا تھا اور ایک چھوٹا سا گارڈروم بھی بنا ہوا تھا۔

ابھی ہم کو بیٹھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ گیٹ کے سامنے ایک کوسٹر آکر رکی اس میں جاپانی سیاح سوار تھے۔ کوسٹر نے سیاحوں کو اتارا اور واپس چلی گئی۔ اب سارے جاپانی لائن لگاکر ہاتھ باندھ کر ایسے کھڑے ہوگئے جیسے اسکول کے بچے ہوں۔ ان کے گائیڈ نے وہاں کھڑے ہوکر کچھ ہدایات دیں مگر کسی سیاح کے منہ سے آواز بھی نہیں نکلی۔ ہم نے صرف ان کی گردنیں ہلتی ہوئی دیکھیں۔ پھرسب گائیڈ کے پیچھے لائن سے میوزیم کے سائیڈ روم میں چلے گئے جہاں ان کی چیکنگ کرکے اندر جانے کی اجازت ملنی تھی۔ سیاحوں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ادھیڑ عمر بوڑھے، عورتیں اور مرد سب شامل تھے مگر کیا نظم وضبط تھا جیسے فوجی پیریڈ کرنے آئے ہوں۔

اب ہم کو قلعے میں جانے کے لیے ایک مرحلہ اور طے کرنا تھا۔ جب اس بیریئر والی جگہ سے گزرے تو ہم نے گارڈ سے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے؟ انقرہ میں ایک بات بہت اچھی لگی دکان دار ہوں، گارڈ ہوں یا عام لوگ ہوں وہ تھوڑی بہت انگریزی ضرور جانتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں غیر ملکی بہت آتے ہیں اور تعلیم کا تناسب بھی استنبول سے زیادہ ہے۔ وہ گارڈ کہنے لگا یہ ممنوع علاقہ ہے۔ یہ رہائشی علاقہ بھی ہے یہاں غیرملکی اور ترکی کی ایلیٹ کلاس کے لوگ رہتے ہیں اور بغیر تصدیق کے کوئی اندر نہیں جاسکتا۔ ہمیں اندر جانا بھی نہیں تھا مگر باہر سے اندازہ ہوگیا تھا کتنا خوب صورت علاقہ ہوگا۔

یہاں تک تو عام سڑک تھی مگر جب ہم قلعے کی سمت مڑے تو وہی پتھریلی سڑک شروع ہوگئی۔ یہاں آکر میوزیم کی دیوار بھی ختم ہوگئی تھی اور پتھریلی سڑک چڑھائی کی سمت جارہی تھی مگر ابھی قلعہ نہیں آیا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار شروع ہوگئی تھی جو جلدی تیز بارش میں تبدیل ہوگئی۔ سڑک کے دونوں طرف دکانیں بنی ہوئی تھیں جس کے اوپر ایک یا دومنزلہ عمارت تھی۔ ہم ایک دکان کے شیڈ کے نیچے جاکر کھڑے ہوگئے اور بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ لمبائی میں بنی ہوئی بہت خوب صورت دکان تھی جس کے اندر ہینڈی کرافٹ شیشے کے شوکیسوں میں سجی ہوئی تھیں۔ ایک فیملی وہاں پہلے سے موجود تھی۔ باپ اپنے دو بچوں اور ماں کے ساتھ شیڈ میں ہمارے ساتھ ہی تھا اور اس کی بیوی دکان میں اپنی بیٹی کے ساتھ چیزیں دیکھ رہی تھی۔ دونوں لڑکے بہت شرارتی تھے اور ایک پانچ سال کا بچہ تو عزیز کا بیگ چھینا چاہتا تھا۔ کبھی بازو میں لٹک جاتا کبھی اس سے کہتا کہ مجھے گود میں اٹھالو۔ دادی اس کو سنبھال نہیں پارہی تھیں جو چھوٹا بچہ تقریباً دو سال کا تھا وہ باپ کی گود میں تھا وہ بھی گود سے اترنے کی ضد کررہا تھا۔

دادی ترکی زبان میں معذرت کررہی تھیں آخر کار باپ سے برداشت نہ ہوسکا اس نے تھوڑی سی بچے کو سرزنش کی تو وہ بچہ تو زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا اور اس طرح چلا چلا کر رویا کہ جیسے اس کی بہت پیٹائی ہوئی ہو۔ باپ نے شرمندگی سے عزیز کو دیکھتے ہوئے ترکی میں کچھ کہا۔

عزیز نے انگریزی میں جواب دیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے بچے ایسے ہی کرتے ہیں وہ صاحب تو انگریزی سن کر خوش ہوگئے۔ ہم جرمنی سے آئے ہیں۔ بچے پہلی بار ترکی آئے ہیں یہ کافی ضدی بچہ ہے صرف ماں کی بات سنتا ہے۔ یہ میری گود میں آنے کی ضد کررہا ہے ماں آجائے تو میں چھوٹے کو گود میں دے کر اسے گود میں اٹھالوں گا۔ عزیز نے کہا میرے بھی چھوٹے بھتیجے بھانجے ہیں۔ میں ان کو گود میں اٹھاتا ہوں اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں اسے گود میں اٹھالیتا ہوں۔ وہ تو خوش ہوگیا۔ ’’well come well come یہ جب تک چپ بھی نہیں ہوگا، میرا چھوٹا بھائی بھی اسے گود میں اٹھاتا ہے تو یہ چپ ہوجاتا ہے۔‘‘ عزیز نے اس روتے ہوئے بچے کو گود میں اٹھالیا تو وہ واقعی چپ ہوگیا مگر ان صاحب کی بیگم اور بیٹی جو گیارہ بارہ سال کی تھی انہوں نے روتے بچے کی طرف توجہ نہیں کی اور آرام سے شاپنگ کرتی رہیں۔

بارش رک گئی تھی بچہ عزیز کی گود میں تھا اور ترکی زبان میں اس سے باتیں کررہا تھا اور دادی اور باپ اس کو دیکھ دیکھ کر نہال ہورہے تھے۔ ان صاحب نے عزیز سے کہا میری ماں کہہ رہی ہے یہ اپنے چچا کو یاد کررہا تھا۔ یہ لڑکے کا ہم عمر ہے جبھی تو چپ ہوگیا۔ خوش ہوگیا ہے دیکھو تو کتنی باتیں کررہا ہے۔ لیکن یہ خوشی کی بات تھی کہ بچہ جرمنی میں پیدا ہونے کے باوجود ترکی زبان جانتا تھا اور وہ لوگ انگریزی جاننے کے باوجود بھی اس سے انگریزی یا جرمن میں بات نہیں کررہے تھے۔ ان صاحب نے ہم کو بتایا کہ انقرہ میں بارش کا یہی طریقہ ہے۔ جلدی رک جاتی ہے۔ ماں بیٹی بھی شاپنگ کرکے لدی پھندی آگئی تھیں۔ شاپنگ کی وجہ سے دونوں بہت خوش تھیں اور ماں کو تفصیل بتانے میں مگن تھیں۔ چھوٹے نے ماں کو دیکھ کر رونا شروع کردیا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ عورت کہیں کی بھی ہو شاپنگ اس کی بہت بڑی کم زوری ہے۔ میاں نے بچہ ماں کو دے کر بڑے بچے کو گود میں لے لیا اور ماں اور بیٹا بار بار عزیز کا شکریہ ادا کررہے تھے۔

ہم شیڈ سے باہر آنے لگے تو بچہ بھی ہم کو ہاتھ ہلاہلا کر خدا حافظ کررہا تھا۔ ترکی شاپنگ رکھنے کے لیے ہلکے پھلکے بیگ استعمال کرتے ہیں جن میں پہیے (ویل) لگے ہوتے ہیں۔ وہ فیملی ابھی بھی شیڈ میں کھڑی تھی اور سامان بیگ میں پیک کررہی تھی۔ ہم باہر آئے تو پتھریلی سڑک دُھلی ہوئی صاف ستھری لگ رہی تھی، وہ تو پہلے ہی اتنی صاف ستھری تھی اب تو چمک رہی تھی۔ آسمان پر بادل تھے مگر بارش کے بعد ہلکے ہوگئے تھے۔

قلعے کی دیوار کے ساتھ ہوٹل اور دکانیں بنی ہوئی تھیں مگر ہینڈی کرافٹ کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ دکانیں ہاتھ سے بنی گڑیوں کی تھیں۔ کچھ گڑیاں تو ایک چار پانچ سال کے بچے کے برابر تھیں۔ ہم نے ایک ایسی دکان بھی دیکھی جو نیچی چھت اور دروں والی پرانی سی دکان تھی جس کی دیواروں پر ہاتھ سے بنی گڑیاں لائن سے لگی ہوئیں تھیں۔ پوری دکان گڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ خاصی ڈرؤانی لگ رہی تھیں۔ دکان کے آخرکونے میں دکان دار زمین پر لگی ہوئی گدی پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خاصا عمررسیدہ تھا اور اس نے ہمیں دیکھ کر بھی کوئی توجہ نہیں کی بلکہ چھوٹے سے حقے کے کش لگاتا رہا۔ لگ رہا تھا اسے اپنی گڑیاں بیچنے سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ دکان میں تمباکو کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے دکان کی فضا اور پراسرار لگ رہی تھی اور بوڑھا دکان دار بھی بہت پراسرار شخص لگ رہا تھا۔

ہم تھوڑی دیر کھڑے رہے جب تک عزیز ویڈیو بناتا رہا پھر انہیں قدموں واپس پلٹ گئے۔ ہم آگے بڑھے تو ایسی کئی اور دکانیں نظر آئیں جن میں گڑیاں فروخت ہورہی تھیں۔ شاید یہ خاص قسم کی گڑیاں تھیں اور یہ گڑیا بازار تھا۔ قلعہ کی دیوار کے ساتھ یہ جو چھوٹا سا گاؤں یا شہر آباد تھا۔ وہاں شاید قدیم زمانے میں بھی شہر ہی ہوگا۔ جو اب ایک موڈرن علاقے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ یہاں قدیم اور جدید کا عجیب سا امتیاز نظر آیا۔ دیواریں اور سیڑھیاں پرانے سیاہ پتھروں کی ٹوٹی پھوٹی اور دکانیں اور مکانات نئے بنے ہوئے۔ اس قلعے کو کئی طرف سے راستے آرہے تھے اور اوپر جانے کے لیے بھی کئی طرف سے سیڑھیاں موجود تھیں۔ ہم جس راستے سے اندر داخل ہوئے وہ ایک بہت بڑا در تھا جس کا دروازہ نہیں تھا، مگر اس در کے فوری بعد ایک کشادہ پتھریلا چبوترا اور اس کے ساتھ ہی اوپر جانے والی سیڑھیاں اور ساتھ ہی نیچے جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ یہ سیڑھیاں ایک چھوٹے سے تہہ خانے میں جارہی تھیں۔ لوگ اس میں جھانک کر دیکھتے ضرور تھے مگر اندر جانے کی کسی نے بھی ہمت نہ کی کیوںکہ وہاں خاصا اندھیرا تھا اور مسلسل پانی جمع ہونے سے بدبو تھی۔ بارشیں تو بہت ہوتی تھیں شاید نکاسی کا راستہ نہیں ہوگا۔

میری توہمت اندر جھانکنے کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اوپر جانے والی سیڑھیاں تعداد میں نو دس تھیں اور پھر ایک چبوترا اور پھر ایسی ہی سیڑھیاں ہر سیڑھی کے ساتھ ہی ایک در بنا ہوا تھا۔ اندازہ ہورہا تھا کہ یہ جگہ ضرور لیمپ یا روشنی کے لیے مشعل وغیرہ رکھنے کے لیے بنائی گئی ہوگی، مگر اس قلعے کی حالت خاصی مخدوش تھی۔ سیڑھیاں بھی آدھی سے زیادہ ٹوٹی ہوئی تھیں ۔ ایسی پانچ چھے سیڑھیاں عبور کرکے ہم اوپر پہنچ گئے۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ آخر اس مخدوش قلعے میں ایسا کیا ہے کہ ایک خلقت اسے دیکھنے آرہی ہے۔ کوئی بیس پچیس افراد تو ہمارے ساتھ ان سیڑھیوں پر موجود تھے۔ ابھی ہم جس جگہ آئے تھے یہ ایک لمبی راہ داری تھی جس میں جگہ جگہ در بنے ہوئے تھے۔ کبھی یہاں سے باہر دیکھا جاتا ہوگا کیوںکہ ان دروں سے اندر جاؤ تو کھڑکیاں بھی تھیں جن کو اب بند کردیا گیا تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے کمرے بن گئے تھے۔ مگر سب آپس میں ملے ہوئے تھے اور ہموار بھی نہیں تھے اور عجیب سی سیلن زدہ بو بھی تھی۔ مجھے تاریخ سے دل چسپی ضرور ہے مگر میں کوئی تاریخ داں نہیں کہ قلعہ کی ایک ایک اینٹ کا مطالعہ کرتی۔ عزیز کو بھی صرف دیکھنے سے دل چسپی تھی مگر کچھ لوگ تو اندر جاکر جائزہ لے رہے تھے۔

تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اوپر جانے والی سیڑھیاں اور بنی ہوئیں تھیں جو قلعے کی فصیل پر جارہی تھیں۔ ہمارے پیچھے جو لوگ آرہے تھے ان میں سے کسی نے عزیز کو پیروں سے پکڑلیا۔ یہ وہی ننھا منا بچہ تھا جو ہمیں شیڈ میں ملا تھا۔ وہ تو عزیز کو دیکھ کر خوشی سے دیوانہ ہوگیا اور پھر مچلنے لگا کہ مجھے گود میں لے لو کیوںکہ بچے کا ہاتھ دادی نے پکڑا ہوا تھا ابا اماں اور بیٹی تو اندر جاکر دیکھنا چاہ رہے تھے مگر دادی نے معذرت کرلی تھی۔ وہ بچے کو دادی کو پکڑا کر اندر جارہے تھے کہ اس نے عزیز کو دیکھ لیا اور اس سے آکر لپٹ گیا۔ اب دادی، ماں باپ بچے کو دیکھ کر نہال ہورہے تھے۔ ماں تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔ عزیز اس بے گار کو سوچ کر ہلکان ہورہے تھے کہ کہیں بچہ ان کی گود میں چڑھ کر فصیل پر جانے کی ضد نہ پکڑلے اور اگر عزیز گود میں لینے سے انکار کردے گا تو وہ زمین پر لیٹ کر رونے لگے گا۔ ان صاحب نے عزیز سے بے تکلفی سے کہا اچھا ہوا کہ تم مل گئے۔ میں آرام سے اندر جاکر ان تجسس کی ماری بلیوں کو دکھاکر لے آؤں گا، ورنہ اس شرارتی بچے کی طرف سے پریشان رہتا۔ عزیز نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور بچے کو گود میں اٹھالیا۔ دادی نہ جانے ہم سے ترکش میں کیا کچھ کہتی رہیں مگر ہماری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آرہا تھا اور بچہ بھی وہ کہانیاں جو شیڈ میں ادھوری رہ گئیں تھیں سنارہا تھا۔ اﷲ بھلا کرے اس سیلن زدہ بدبو کا وہ لوگ جیسے اندر گئے تھے الٹے پاؤں واپس آگئے۔ دونوں ماں بیٹی نے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور ابا ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے اور بچہ عزیز کے گلے میں ہاتھ ڈالے چپکا ہوا تھا۔

اتنی دیر میں بچے کی ماں کو کچھ خیال آیا اس نے میاں سے ترکش میں کہا تو اس نے موبائل نکال کر ہمارے سامنے کردیا۔ وہاں عزیز کی گود میں اس کا بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔ اب حیران ہونے کی ہماری باری تھی۔ میرا چھوٹا بھائی ہے تمہاری شکل اس سے ملتی ہوئی ہے۔ تمہارا ہم عمر ہے مگر اس کی چھٹیاں نہیں تھیں تو وہ ہمارے ساتھ نہ آسکا میرا بیٹا اس سے بہت اٹیچ ہے ہم کو زیارت کے لیے حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار آنا تھا ورنہ ہر ٹور پر وہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ بچہ عزیز سے اتنا بے تکلف کیوں ہورہا تھا۔ واقعی اتنی شباہت ہونا حیرانی کی بات تھی۔ حد تو یہ کہ باتوں سے، اسٹائل بھی عزیز جیسا تھا ۔ ان صاحب نے تمام رابطے لے لیے اور عزیز کو تصویر بھی سینڈ کردی۔ عزیز نے انہیں بتایا کہ ہم بھی حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار کی زیارت کرکے آرہے ہیں۔ وہاں ہم نے اس طرح کے چھوٹے لڑکے دولہا بنے دیکھے تھے۔ عزیز نے انہیں بھی ان لڑکوں کی تصویریں دکھائیں۔ تو ماں کبھی اشاروں سے عزیز کو چومیں، کبھی دعا کریں۔ بار بار اسے سینے پر ہاتھ رکھ کر خلیل خلیل کہیں اور اپنے بیٹے سے کہا کہ انہیں خلیل کی اور اپنی دولہا بنی تصویریں دکھاؤ اور وہ صاحب ایک کے بعد ایک تصویریں دکھاتے رہے۔ خلیل کی تصویریں دیکھ کر تو ایسا لگ رہا تھا کہ عزیز کے بچپن کی تصویریں ہیں، سبحان اﷲ تیری شان۔ یہ تصویریں دیکھ کر تو یقین ہوگیا کہ دنیا میں ایک شکل کے سات لوگ ہوتے ہیں۔ باپ نے عزیز کی گود سے بچہ لے لیا تو ہم خدا حافظ کہہ کر اوپر والی سیڑھیاں چڑھ کر فصیل پر آگئے۔ وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ ہی اوپر آگئے تھے۔

میں نے اس قلعے کی مخدوش حالت دیکھ کر سوچا تھا کہ لوگ اس قلعے میں کیا دیکھنے آتے ہیں، تو فصیل پر آکر جواب مل گیا۔ یہ تقریباً سو گز چوڑی فصیل تو ہوگی جس کے سارے کنگورے تو جھڑچکے مگر حفاظت کے لیے لوہے کی مضبوط اونچی گرل لگادی گئی تھی۔ کہیں کہیں دیوار سلامت تھی تو وہاں بھی اونچائی پر گرل لگی ہوئی تھی۔

کچھ نوجوان تو اس دیوار پر چہل قدمی بھی کررہے تھے اور چاہتے تھے کہ گرل پر بھی چڑھ جائیں یہاں کوئی بھی گارڈ موجود نہ تھا۔ تمام سیاح جن میں یورپی، جاپانی، جرمن، سب ہی شامل تھے دیوار پر کسی نے چڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ سوائے ان چند زندہ دل نوجوانوں کے، دیوار پر اتنا رش تھا کہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ یہاں آکر سردی کا احساس بڑھ گیا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی مگر بادل پھر گہرے ہونا شروع ہوچکے تھے۔ ہم فصیل پر تھوڑا آگے بڑھے تو فصیل کے پاس جگہ مل گئی۔ یہاں رش کچھ کم تھا۔ فصیل کے قریب آنے سے معلوم ہوا کہ یہاں سے پورے شہر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ناقابل یقین حد تک خوب صورت نظارہ تھا۔ قلعے کے اندر اور باہر بنے ہوئے مکانات جن کی چھتیں ایک انداز کی سرخ کھپریل کی بنی ہوئی تھیں اور آگے کا شہر بھی دور دور تک نظر آرہا تھا۔

حالاںکہ قلعے کے اندر اور باہر کا تمام علاقہ Botanical تھا اور وقت کے ساتھ خود ہی آباد ہوتا رہا تھا مگر پھر بھی ترتیب بہترین تھی اور صفائی ستھرائی کی وجہ سے اور خوب صورت لگ رہی تھی۔ ہم یہاں زیادہ دیر نہیں رک پائے کیوںکہ بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ بادلوں کی وجہ سے لگ رہا تھا کہ کچھ دیر میں اور تیز ہوجائے گی کیوںکہ قلعہ خاصا مخدوش تھا، اس لیے بارش سے پھسلن بھی ہوجاتی۔ آہستہ آہستہ فصیل خالی ہورہی تھی کیوںکہ فصیل سے اترنے کے کئی راستے تھے، اس لیے زیادہ رش نہیں لگ رہا تھا مگر جب ہم نیچے آئے تو وہ لوگ ہم کو پھر مل گئے۔ بچہ تو باپ کے کاندھے سے لگا سورہا تھا۔ دو سالہ بچے کو ماں نے سنبھالا ہوا تھا اور بچی نے دادی کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ترکی میں مسلمان خاندانوں میں مشترکہ خاندانی نظام اب بھی موجود ہے۔ ان کو دیکھ کر خوشی ہورہی تھی حالاںکہ ماں اتنی بوڑھی اور کم زور نہیں تھیں مگر فیملی ان کا خیال رکھ رہی تھی۔ شاید وہ دوسرے راستے سے آئے تھے اس لیے اسی طرف چلے گئے۔ ہم میوزیم والے راستے سے واپس آگئے۔ یہ ڈھلوانی راستہ تھا مگر قلعہ کی سیڑھیاں اترنے چڑھنے سے خاصی تھکن ہورہی تھی۔

میوزیم کے آگے جو دیوار تھی اس میں سے سیڑھیاں دوسری طرف سڑک پر اتر رہی تھیں، کیوںکہ ہمیں اندازہ ہورہا تھا کہ اگر ہم جس راستے سے آئے تھے اس طرف سے واپس جائیں گے تو پھر سیڑھیاں اترنی ہوں گی وہ بھی پتھریلی۔ یہ نئی بنی ہوئی اچھی سیڑھیاں تھیں ہم آرام سے نچلی سڑک پر آگئے۔ یہ رہائشی علاقہ لگ رہا تھا ایک کمپاؤنڈ میں بہت خوب صورت مکان بنے ہوئے تھے اور ساتھ پارکنگ ایریا تھا۔ دوسری طرف پہاڑی ڈھلوانیں تھیں جو بے انتہا سرسبز تھیں اور اونچے اونچے درخت سایہ کیے ہوئے تھے اور پھوار کو بھی روکے ہوئے تھے۔ ہم آرام سے چلتے ہوئے بازار کی سمت آگئے مگر ہمارے دائیں بائیں کچھ جگہیں ایسی بھی ملیں جن سے لگ رہا تھا کہ یہ کاٹج انڈسٹری کا علاقہ ہے۔ اب پھوار پھر سے بارش میں تبدیل ہوگئی تھی۔ ہم ایک ریسٹورنٹ میں آگئے۔ یہاں آکر احساس ہوا کہ ہمیں خاصی بھوک لگ رہی ہے اور اب سردی بھی لگ رہی تھی حالاںکہ میں نے سویٹر پہنا ہوا تھا مگر عزیز کے بیگ پیک میں شال بھی رکھوائی ہوئی تھی وہ بھی پہن لی۔

اس وقت جو ہم نے کھانا کھایا وہ اس ٹور کا سب سے بہترین کھانا تھا یا موسم اتنا خوب صورت ہوگیا تھا کہ کھانے کا لطف آگیا۔ بارش رکنے کے بعد جب ہم باہر آئے تو سڑک پر ایک قطرہ پانی کا نہیں تھا۔ بس بھی ہمیں جلدی مل گئی۔ ہوٹل آکر جو سوئے تو سویرے آنکھ کھلی۔ ہمیں آج ہوٹل چھوڑ دینا تھا اور قونیہ کے لیے روانگی تھی، اس لیے جلدی اٹھ گئے۔ ناشتہ تو باہر ہی کرنا تھا، کیوںکہ چائے کا سامان بھی ختم ہوگیا جب ہم چیک آؤٹ کرکے باہر آئے تو موسم آج بھی ابرآلود تھا اور ناشتے کے لیے ہوٹل کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔

ہم جب ناشتہ کررہے تھے تو ہمارے سامنے والی میز پر کچھ جرمن بیٹھے ہوئے تھے۔ جرمن بڑی سخت لہجے والی زبان ہے اور جرمن قوم بھی سخت رویہ رکھنے والی نظم وضبط کی پابند قوم ہے۔ ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ اس لیے ہے کہ میرے جیٹھ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک جرمنی میں رہے ہیں اور ان کے بچے بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ جرمنوں کا رہن سہن بہت سادہ ہے اور کھانا نہ زیادہ پکاتے ہیں نہ ضائع کرتے ہیں۔ عزیز اس بات پر حیرت زدہ ہورہا تھا کہ انقرہ میں جاپانی اور جرمن سیاح بہت نظر آتے ہیں اور ترکوں کے پورے پورے خاندان جرمنی میں آباد ہیں اور آرام سے ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرتے ہیں۔ میں نے عزیز کو بتایا کہ مجھے اس کے پس منظر کا اتنا تو اندازہ نہیں ہے مگر جنگ عظیم دوئم کے زمانے میں جرمنی، جاپان، اٹلی اتحادی ممالک تھے اور ترکی کی حکم رانی خلافت عثمانیہ کے ہاتھ میں تھی، انہوں نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ ہمارے مسلمان نظام حیدرآباد نے برصغیر میں تحریک خلاف کا ساتھ دیا تھا جس کے خلافت عثمانیہ کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔ جب جاپان پر ایٹم بم مارا گیا اور جنگ ختم ہوگئی تو جرمنی اور ترکی میں آزادانہ دو طرفہ تعلقات قائم رہے اور آزاد تجارت اور ویزے کی آسانی ہوگئی تو ہزاروں ترک باشندوں نے جرمنی کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے لیے وہاں ہجرت کرلی تھی، کیوںکہ جرمنی میں افرادی قوت کی کمی ہوگئی۔ ہزاروں جرمن جنگ میں مارے گئے تھے اور جرمنی مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا اور یہ تعلقات آج تک قائم ہیں۔

’’اماں اِس کا مطلب ترک لوگ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، یہ دیکھیں ایک میسج آیا ہے۔‘‘ اس نے موبائل میرے سامنے کیا اس میں عبدالرحمان کا میسج آیا ہوا تھا۔ عبدالرحمان خلیل کا بھائی جو ہمیں قلعہ میں ملا تھا۔ اس نے ہمیں خدا حافظ کہا تھا اور قونیہ کے سفر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ اس کے ساتھ خلیل اور عزیز کی تصویر بھی ساتھ ساتھ لگائی ہوئی تھی۔

واقعی مسیج دیکھ کر خوشی ہوئی تھی۔ عزیز نے اسے خداحافظ کہا اور بتایا کہ ہم میٹرو ٹرین کے اسٹاپ جارہے ہیں۔ انشاء اﷲ جیسے ہی وقت ملا میں جواب دوں گا۔ اس وقت اس کا میسج آگیا،’’میں انتظار کروں گا خداحافظ۔‘‘

یہاں ہم اپنے پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں تاکہ بارہویں پڑاؤ کی سمت قدم بڑھاسکیں۔


%d8%a7%d9%86%d9%82%d8%b1%db%81-%da%a9%d8%a7-%d9%82%d9%84%d8%b9%db%81%d8%8c-%da%af%da%91%db%8c%d9%88%da%ba-%da%a9%d8%a7-%d8%a8%d8%a7%d8%b2%d8%a7%d8%b1

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *