نیل سے فرات، گریٹر اسرائیل کیا ہے؟

0

انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر1948ء میں عالمی استعماری قوتوں امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی حکومتوں نے ایک ناجائز ریاست اسرائیل کو قائم کیا تھا۔ یہ اسرائیل اس لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ مغربی ایشیائی ممالک میں عالمی استعماری قوتوں کے مفادات کے لیے رکھوالی اور چوکیداری کا کام کرے۔ غاصب اسرائیل کو قائم کرنے والے صہیونیوں نے پہلے دن سے ہی فلسطین کی زمین کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ یہاں سے زمینی اور سمندری دونوں راستوں سے ایشیائی ممالک کی افریقی ممالک اور یورپی ممالک کی ایشیائی اور افریقی ممالک تک رسائی کو مکمل کنٹرول میں رکھا جائے اور سیاسی و معاشی اعتبار سے دنیا پر نوآبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل صیہونزم کے ساتھ مخلوط ہوکر جاری رہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دنیا پر تسلط اور حکومت کے اس خواب نے جہاں فلسطینی قوم کو ظلم و ستم کی چکی میں پیس کر رکھ دیا، وہاں ان کو ان کے اپنے وطن سے محروم بھی کیا گیا اور آج بھی پون صدی بیت جانے کے بعد فلسطینی قوم پر تمام ہی مغربی دنیا کی حکومتوں کی مدد سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود قتل عام اور نسل کشی کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالیہ غزہ جنگ میں ایک سال میں چالیس ہزار سے زائد معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی ہے۔ لاکھوں زخمی ہیں، دسیوں ہزار اپنے جسمانی اعضاء سے محروم ہوچکے ہیں۔ ہزاروں ہی ایسے ہیں جو ملبہ تلے دب چکے ہیں۔ دسیوں ہزار بچے اور خواتین اس نسل کشی میں موت کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ غاصب اسرائیل کے ہاتھوں سے امریکا اور مغربی حکومتوں کی مدد سے انجام پا رہا ہے۔

فلسطین پر غاصب صیہونی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی صیہونیوں نے جہاں اپنے سیاسی و معاشی عزائم کی بنیاد بنائی تھی، وہاں ان کے سامنے مذہبی عنصر بھی موجود تھا، لہذا اس لیے انہوں نے فلسطین سے مسلمان فلسطینیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینیوں کو بھی ختم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور بعد ازاں مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی نسل کشی کا شکار بنایا گیا۔ آج بھی موجودہ حالات میں جہاں مساجد اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہی ہیں وہاں فلسطین، شام و لبنان میں عیسائی عبادت خانے یعنی چرچ بھی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔

غاصب صیہونیوں نے اپنے مذہبی جھوٹے اور من گھڑت عقائد سے اپنے صیہونی آباد کاروں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ صیہونی ہی دنیا کی سب سے بہترین قوم ہیں اور اللہ کی پسندیدہ مخلوق ہیں، تاہم باقی مخلوقات کو فلسطین کی زمین پر نہ تو رہنے کا حق ہے اور نہ زندگی کا حق ہے۔ ان کے نزدیک تمام ہی دیگر اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کو قتل کرنا اور ان کی نسل کشی کرنا جائز تصورکیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جو اصل یہودی مذہب پیروکار ہیں ان کو بھی صیہونیوں کے ظلم وستم کا شکار بنایا جاتا ہے۔

صیہونیوں کے من گھڑت مذہبی عقائد میں ایک عقیدہ نیل سے فرات تک اسرائیل کی سرحدوں کا معاملہ بھی ہے، جس پر ہمیشہ سے ہی صیہونیوں نے زور دیا ہے۔ جس وقت فلسطین پر صیہونی غاصبانہ تسلط قائم کیا گیا تھا اس وقت بھی صیہونزم کے بانیوں نے اس بات کی تکرارکی تھی کہ فلسطین پر قائم ہونے والی صیہونی ریاست اسرائیل کا وجود صرف فلسطین تک نہیں ہے بلکہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں گی اور اس کو عظیم تر اسرائیل یعنی انگریزی میں گریٹر اسرائیل کہا جائے گا۔

گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے 1948کے بعد سے ہمیشہ صیہونیوں نے کوشش جاری رکھی ہوئی ہے اور آخری کوشش ان کی داعش تھی جو شام و لبنان اور عراق میں اسلامی مزاحمتی تنظیموں کے مقابلے میں نابود ہوگئی اور اس طرح ایک مرتبہ پھر صیہونیوںکو گریٹر اسرائیل بنانے میں ناکامی کا سامنا رہا۔ آج بھی موجودہ جنگ کا پس منظر اسی طرح ہی ہے کہ پورے فلسطین کو خالی کرنے کے بعد غاصب صیہونیوں کا اگلا ہدف لبنان و شام و عراق ہیں تاکہ وہ اپنے من گھڑت مذہبی عقیدے کے مطابق گریٹر اسرائیل کی تشکیل کو یقینی بنائیں لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اس جنگ میں غاصب اسرائیل بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔

گریٹر اسرائیل کی حقیقت صیہونیوں کے نزدیک بہت زیادہ ہے۔ اسی وجہ سے صیہونی فوجیوں کے لباس پر جو نقشہ موجود ہے وہ گریٹر اسرائیل کا نقشہ ہے۔ یہ نظریہ ہمیشہ سے صیہونیوں کے بانیوں کی طرف سے چلا آ رہا ہے۔آخر یہ گریٹر اسرائیل کیا ہے اور اس کی سرحدوں کا تعین کہاں تک کیا گیا ہے ؟

غاصب صیہونیوں کی جانب سے بیان کردہ گریٹر اسرائیل میں پورے کا پورا فلسطین یعنی 100فیصد فلسطین، 100فیصد لبنان، 100فیصد ہی اردن، 70 فیصد شام کے علاقہ جات، 50 فیصد عراق کے علاقہ جات، 33 فیصد سعودی عرب کے علاقہ جات، 30 فیصد مصرکا علاقہ، 50 فیصد کویت کا علاقہ شامل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ علاقے ترکیہ کے بھی اس نقشے میں شامل ہیں۔ ان سب کو ملا کر نیل سے فرات کا خواب پورا ہوتا ہے، جسے صیہونیوں نے گریٹر اسرائیل کا نام دیا ہے۔

غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ایک لکھاری اور صحافی آوی لیپکن کہتا ہے کہ ’’ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ اسرائیل کی سرحدیں لبنان سے سعودی عرب تک ہیں، جس میں مکہ و مدینہ سمیت بحیرہ روم، وادی سینا اور دیگر علاقہ جات شامل ہیں۔‘‘

اب اس گریٹر اسرائیل کے لیے دیکھیے کس طرح صیہونیوں نے استعماری حکومتوں کے ساتھ مل کرکام شروع کیا،1917 میں بالفور اعلامیہ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کو اجازت دی گئی کہ وہ فلسطین آئیں اور آباد ہو جائیں۔ فلسطینیوں کو مجبورکیا گیا کہ وہ اپنی زمینیں ان یہودیوں کو فروخت کردیں لیکن 31 سال تک فلسطینیوں نے اس مسئلے میں مزاحمت اختیارکی اور اپنی زمینوں کو فروخت نہ کیا۔ صیہونیوں کی آباد کاری جاری رہی اور انہوں نے فلسطین کی زمینوں پر برطانیہ اور امریکا کی مدد سے قبضہ جاری رکھا اور آخرکار1947 میں اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق فلسطین کو تقسیم کردیا گیا، حالانکہ فلسطینی اس تقسیم کے خلاف تھے۔ اقوام متحدہ جو دنیا میں امن و امان کے قیام اور انصاف کی رسائی کے لیے بنائی گئی تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی اور چوری کی ذمہ دار بن گئی اور 55 فیصد فلسطین کا علاقہ غاصب صیہونیوں کے لیے مختص کر دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے ہاتھوں سے فلسطین کے خلاف ہونے والی خیانت آج 2024 میں یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب صرف غزہ اور مغربی کنارہ باقی ہیں، باقی ماندہ پورے فلسطین پر غاصب صیہونیوں کا ناجائز تسلط قائم ہے۔ اب صیہونیوں کا بنیادی مقصد ہے کہ وہ پورے کے پورے فلسطین جیسا کہ گریٹر اسرائیل کے لیے ان کو 100فیصد فلسطین پر تسلط چاہیے، اس کے لیے کوشش کررہے ہیں، لیکن فلسطین کی مزاحمت نے اس ناپاک منصوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کردی ہے۔ اب گریٹر اسرائیل کو قائم کرنے کے لیے یعنی باقی ماندہ ممالک کے علاقوں کوکنٹرول کرنے سے پہلے اسرائیل چاہتا ہے کہ پہلے فلسطین کو مکمل زیر تسلط لے اور پھر باقی ممالک کی طرف پیش قدمی کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ آج اگر غزہ اور لبنان لہولہان ہیں اور خطے کی حکومتیں ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں تو پھر ان تمام حکومتوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل کے طے شدہ نقشے اور منصوبے کے تحت اسرائیل ان عرب حکومتوں سے بھی اپنے معین کردہ اور بیان کردہ علاقوں کو چھین لے گا۔ لٰہذا موجودہ صورت حال میں غزہ میں فلسطینی قوم اور مزاحمت جس جنگ میں شریک ہے وہ جنگ صرف فلسطین اور غزہ کی نہیں ہے بلکہ یہ جنگ در حقیقت ان تمام عرب ریاستوں کے بقاء کی ہے جن کا ذکر اسرائیل نے اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے میں کر رکھا ہے۔ اسی طرح آج اگر لبنان یا ایران یا عراق فلسطین کی حمایت میں غاصب صیہونیوں سے نبرد آزما ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جنگ صرف ایران، عراق اور لبنان کی بقاء کی نہیں ہے بلکہ یہ سعودی عرب اورکویت سمیت ترکی اور ہر اس حکومت و قوم کی جنگ ہے جس کے بارے میں غاصب اسرائیل نے گریٹر اسرائیل میں زمینوں اور حکومتوں کو ہڑپ کرنے کا ناپاک منصوبہ بنا رکھا ہے۔


%d9%86%db%8c%d9%84-%d8%b3%db%92-%d9%81%d8%b1%d8%a7%d8%aa%d8%8c-%da%af%d8%b1%db%8c%d9%b9%d8%b1-%d8%a7%d8%b3%d8%b1%d8%a7%d8%a6%db%8c%d9%84-%da%a9%db%8c%d8%a7-%db%81%db%92%d8%9f

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *