بُک شیلف – ایکسپریس اردو

0

ہر ایک جنم کی جانما(ناول)
ناول نگار: محمد حفیظ خان، قیمت: چودہ سو روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم ، رابطہ: 03215440882

اس ناول کا انتساب نوابوں کے حرم میں ذلتوں کی اسیر ان باندیوں کے نام کیا گیا ہے جن کا حسن ہی ان کی حرماں نصیبی کا سبب بنا۔ ایسی ہی ایک باندی یاسمین بھی تھی۔ امید ہے کہ ا?پ ان سطور ہی سے جان چکے ہوں گے کہ اس ناول کا موضوع کیا ہے۔

جناب محمد حفیظ خان کے اس ناول کے سب کردار ہی انوکھے ہیں۔

مثلاً عاشقا جو اپنی نسلیں سنوارنے کے لیے اپنے پسماندہ گاؤں سے نکلا اور بہاولپور شہر پہنچا۔ وہاں اس نے اپنے سارے خواب پورے کرنے کا سامان بھی کرلیا تھا لیکن پھر وہ ایسی تاریک راہوں میں گم ہوا جہاں لالچ، حرص اور ہوس کی دلدل تھی۔

اور ست بھرائی نامی لڑکی بھی اس کہانی کا عجب کردار ہے۔ وہ اپنی اٹھتی بلکہ بے قابو جوانی کے سبب غیر معمولی پرجوش اور دلیر تھی۔ محبت میں ایسی دلیری بہت سے مرد بھی نہیں دکھا سکتے جو ست بھرائی دکھا جایا کرتی تھی۔ وہ عاشقے کے بیٹے پر ایسی عاشق ہوئی کہ شاید ہی کوئی ایسا عشق کر سکے۔

اس کہانی میں زن، زر اور زمین۔۔۔ تینوں اپنی اپنی جگہ خوب تباہی مچاتے ہیں۔ اس کی ایک بھرپور مثال ‘حسینہ’ تھی جس کے جال میں پھنسا شکار، سب کچھ جانتے بوجھتے پھڑپھڑاتا بھی نہیں تھا۔ یہ کہانی ریاست بہاولپور کے نوابوں کے محلات اور اس کے سائے میں چلتی رہتی ہے۔ نوابوں کے محلات کی دیواریں کچھ وقت گزرنے کے بعد خود نوابوں کی جان کی دشمن بن جاتی تھیں۔ نواب اپنا اقتدار بچانے کے لیے خود کو ازلی دشمنوں کے ہاں گروی رکھ دیتے تھے۔ پھر پڑھنے والا دیکھتا ہے کہ کیسے لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بنتی ہے۔

اگرچہ اس کہانی کے کردار فرضی ہیں لیکن اس کا تاریخی تناظر حقیقی ہے۔ ناول نگار نے تاریخی پس منظر کو جاننے اور جانچنے کے کے لیے ’صادق التواریخ‘،’تاریخ الوزرا‘ اور ’ریاست بہاولپور کا نظام عدل‘ سے استفادہ کیا۔

ناول نگار محمد حفیظ خان ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈراما نگار ہیں اور محقق، مورخ اور نقاد بھی ہیں۔ بنیادی طور پر وکیل تھے، پھر ری?ڈیو پاکستان سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوئے اور باقاعدہ صحافت بھی کی۔ ساتھ ہی مختلف تعلیمی اداروں میں قانون کی تعلیم دینے لگے۔ بعدازاں وفاقی اور صوبائی سول سروس کا حصہ رہے۔ سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کے مناصب پر بھی فائز رہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی شخصیت کس قدر ہمہ جہت ہے۔

جس فرد نے زندگی کے بہت سے شعبے دیکھے ہوں ، وہاں زندگی گزاری ہو، مشاہدہ کیا ہو ، وہ جب لکھنے پر ا?تا ہے تو خوب لکھتا ہے۔’ ہر ایک جنم کی جانما‘ کے عنوان سے کہانی پڑھ کر ا?پ بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوں گے۔ بلاشبہ یہ ایک شاندار ناول ہے۔ یہ مغرب میں لکھا جاتا تو لوگ اسے طویل قطاروں کی صورت انتظار کرتے ہوئے خریدتے، پھر اس کا خوب شہرہ ہوتا اور اس پر فلمیں بنتیں۔

خوبصورت سرورق، عمدہ کاغذ پر شاندار طباعت۔۔۔۔’بک کارنر‘ نے ناول کی اشاعت کے سارے تقاضے بہترین انداز میں پورے کیے۔

پڑاوْ (سفرنامہ)
مصنف: بینش ارشد، پبلشر: دربان کتابیں ڈسکہ

ابھی ابھی پڑاوْ مکمل کی ہے۔ پڑاوْ لائبیریا کا سفرنامہ ہے۔ وہی لائبیریا جو افریقہ میں بحرِ اوقیانوس کے کنارے آباد ہے اور ایک زمانے میں کامن ویلتھ کالونی تھا۔ میری نظر سے اب تک لائبیریا کا سفرنامہ نہیں گزرا، اس لئے شنید ہے کہ پاکستان میں اور خاص طور پر اردو زبان میں لائبیریا کے متعلق یہ پہلا سفرنامہ ہے۔

سب سے پہلی بات جو آپ لوگوں کے گوش گزار کرنی ہے کہ یہ کتاب بروز جمعہ 28 جون سے مارکیٹ میں دستیاب ہے اور بطورِ لکھاری بینش ارشد کی یہ پہلی کتاب ہے۔ یوں بھی ہمارا خطہ سفرنامہ نگاری کے حوالے سے بہت زرخیز ہے اور بینش ارشد اس میں ایک خوشگوار اضافہ ہیں۔ کتاب کے مطالعہ میں مصنفہ نے فِکشن کا سہارا بالکل نہیں لیا انہوں نے صاف گوئی سے لائبیریا کا احوال، مذہب، موسم، حدود اربعہ، رسوم و رواج، تاریخ، تہذیب بیان کر کے قارئین کو اس ملک کے بارے میں مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ وہ معلومات ہیں جو انہوں نے وہاں اپنے تین سالہ قیام کے دوران اکٹھی کی ہیں۔

اس کتاب کو پڑھنے کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ اس کتاب کا رنگین سرورق ہے جو کہ بیحد خوبصورت اور دلچسپ ہے۔ اس خوبصورت سرورق کو ڈیزائن کرنے کیلئے طارق بھائی کو الگ سے داد جس کی دلکشی قاری کو کتاب پڑھنے پر اکساتی ہے۔ دوسری وجہ نئی مصنفہ کی پہلی کتاب جو خود کو پڑھوانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس سفرنامے کے 19 ابواب ہیں۔ محترمہ بینش نے نہ صرف لائبیریا ہی نہیں بلکہ جمہوریہ گِنی اور لبنان کے متعلق بھی وافر معلومات چند ابواب میں دی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گِنی لائبیریا کا ہمسایہ ملک ہے اور دونوں طرف لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ دوسرا لبنان کے بارے میں معلومات کی وجہ ان کی ایک ہمسایہ خاتون مادام تعمیم ہیں۔

مصنفہ نے اپنے سفر نامے کا آغاز افریقہ سے پہلا تعرف ہجرتِ حبشہ اور حضرت بلالؓ سے کیا ہے جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس سفرنامے میں لائبیریا کے متعلق تاریخی حوالے لازماً شامل ہونگے، اور ایسا ہی ہوا۔ مصنفہ کا وہاں قیام لائبیریا کے دارالحکومت ”مونروے” میں تھا۔ نئے ماحول، نئی آب و ہوا میں جب ان کا تعلق کچھ پاکستانی خاندانوں کے ساتھ بڑھا تو ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں کھانے کے دوران سرونگ ٹرے کے رنگین کاغذ سے لائبیریا کے متعلق جاننے اور اس کی سیاحت کا شوق بڑھا کیونکہ وہ محض رنگین کاغذ نہ تھا ملکی معلومات سے مزین بروشر تھا۔ کس قدر خوبصورتی سے اپنے ملک کی تاریخ سے آشنا کرنے کا طریقہ اپنایا گیا ہے جو ملکی تاریخ، کلچر اور تہذیب کی کھوج لگانے کی طلب بڑھا دے۔ لائبیریا 15 کاوْنٹیوں پر مشتمل ہے۔

یہ ایک سیکولر ملک ہے جس کی اکثریت آبادی مسیحی ہے، قومی زبان انگریزی ہے اس کے علاوہ مختلف قبائلی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ امریکی مفاد یہاں ہیرے اور سونے کی کانوں سے بھی وابستہ رہا ہے، اور ابھی بھی باہر کی کمپنیاں یہاں کھدائی کا سارا کام سنبھالتی ہیں۔ حکومت کو صرف دو فیصد کے حساب سے منافع دیا جاتا ہے باقی سارے کا سارا مال امریکہ لے جاتا ہے۔ لائبیریا ہر طرح سے زرخیز ملک ہے اور اس کی معیشت کا انحصار سونے، ہیرے اور ربڑ کی پیداوار پر کرتا ہے۔ یہ غریب ملک ہے لوگ کسی بھی چیز، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کے لیے کوئی خاص تکلف نہیں کرتے۔ عام آبادی لکڑی اور ٹین کی چھتوں والے گھروں میں رہتی ہے یہاں کی آب و ہوا انتہائی معتدل ہے نہ یہاں زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ سردی۔ یہاں پر صرف دو موسم پائے جاتے ہیں بارش کا موسم اور سوکھے کا موسم۔ متوسب طبقہ یہاں ناپید ہے۔

یہاں پر تن ڈھکنے کیلئے لنڈا ہی کام آتا ہے۔ مسلمان سمیت دیگر مذاہب کے لوگ بھی ایکسٹرا میریٹل ریلیشن شپ رکھتے ہیں۔ اکثریت کو شادی کرنے کا خیال کئی بچوں کی پیدائش کے بعد آتا ہے۔ یہاں پر چائلڈ لیبر بہت زیادہ ہے۔ مزدوری کر کے بچے اپنا خرچہ خود اٹھاتے ہیں۔ یہاں کی خواتین فیشن ایبل ہیں۔ رنگ برنگے ملبوسات، نقلی وگ، میک اپ اور آرائش کے سامان کی شوقین ہیں۔ بھارتی اور لبنانی لوگوں کی کثیر تعداد وہاں آباد ہے۔ یہاں کے لوگ موسیقی کے دلدادہ ہیں اور بھارتی موسیقی گانے بہت مقبول ہے اور ان پر ناچنا عام ہے۔

مصنفہ نے یہاں جن جن علاقوں کی سیاحت کی اس کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے کہ میں بار بار گوگل سے ان جگہوں کے بارے میں معلومات لیتی رہی اور تصاویر دیکھتی رہی۔ 1979 میں تعمیر کئے گئے ہوٹل افریقہ ٹراپیکانہ بیچ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ عالی شان ہوٹل انٹرنیشنل افریقہ کونسل کے اجلاس کیلئے تعمیر کیا گیا۔ جو بعد میں ہوٹل ڈکور کی طرح خانہ جنگی کی نظر ہوگیا۔ اس ہوٹل اور اس کے بیچ پر پاکستانی فون کا قیام بھی رہا ہے جو یو این امن فوج کے طور پر کئی سال وہاں کام کرتی رہی۔ لائبیریا میں Boomy Blue Lake کا ذکر مصنفہ نے بہت خوبصورتی سے کیا ہے۔

یہ جھیل 1990 میں لوہے کی کان کے بیٹھ جانے سے وجود میں آئی ہے۔ اس جھیل کی گہرائی پاک فوج کے غوطہ خوروں نے 300 فٹ کنفرم کی تھی۔ یہ جھیل ارد گرد کے علاقے کو پینے کا پانی فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ولکی فارم کا زکر ہے جو 1998 میں وہاں کے کاروباری اور سیاسی شخصیت Benoni Wilfred Urey نے 400 ایکڑ میں تعمیر کروایا ہے۔ اس باب میں مصنفہ نے ان کے زندگی کے حالات بیان کئے ہیں۔ اس فارم میں کئی ریستوران، کلبز، سوئمنگ پولز کے علاوہ گھوڑوں کے اصطبل، مرغی، ترکی، مگرمچھ، شتر مرغ اور مچھلیوں کے فارمز بھی ہیں۔

لائبیریا، بادل اور سمندر ایک ایسی مثلث ہے جو ایک دوسرے کے بنا ادھوری ہے۔ بادلوں کا گہرا عشق سمندر اور لائبیریا سے آسمان جھکا ہوا لگتا ہے اور بادل اتنا قریب محسوس ہوتے ہیں کہ سارا منظر کسی تھری ڈی پینٹنگ کی مانند حرکت کر رہا ہو۔ اس کتاب میں معلومات ہے، جذبات ہیں اور بہت شاندار منظر کشی ہے جو آپ کو ٹھنڈی سمندری ہواؤں کی سرزمین پر لے جاتی ہے جس کے اندر فطری لاپروائی ہے۔

مایا
شاعرہ: گلناز کوثر، قیمت:1200روپے، صفحات:168
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور(03014208780)

شاعری قدرت کا بڑا خوبصورت تحفہ ہے جسے عطا ہوتا ہے وہ بڑا خوش قسمت ہے کیونکہ اسے اپنے دل کی بات بڑے حسین پیرائے میں کہنے کا ملکہ عطا ہوا ہے ۔ گلناز کوثر نے گو نظم نگاری کا باقاعدہ آغاز نوے کی دہائی کے اوائل میں کر دیا تھا لیکن اسے منظر عام پر لانے میں دس طویل برس انتظار کیا ، اسی لیے جب ان کی نظم اپنے قاری تک پہنچی تو اسے چونکنے پر مجبور کر دیا ۔ شعری شعور پروان چڑھا تو تو وکالت کی ڈگری ایک جانب رکھ کر ادب کی تعلیم کی طرف توجہ کی۔ انگریزی اور اردو ادب میں ماسٹرز کیے اور طویل برسوں تک شاعری ، نثر اور تنقید کا مطالعہ کیا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ایم فل کیا اور متعدد ریسرچ پیپرز لکھے، کئی کتابوں کے تراجم کیے،این سی اے لاہور میں نوکری کے دوران اس کے ذیلی ادارے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن سنٹر کے لیے بھی آرٹ کے اہم نقاد جان برجر کی کاتب Ways Of Seeing کا ترجمہ کیا۔

ورڈزورتھ کی کئی نظموں کو منظوم صورت میں اردو کے قاری تک پہنچایا، بعد ازاں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی کے تحت کلاسکس آف ورلڈ لٹریچر پڑھایا۔ شاعری کا سفر البتہ ان ساری علمی و ادبی سرگرمیوں کے متوازی چلتا رہا ۔ لیکن پھر دوہزار چھ میں جب ایک جانب الحمراء ہال میں ان کی نظموں کی گونج تھی اور دوسری جانب تا نیثیت کے موضوع پر ایم فل کا مقالہ تقریباً تیار تھا، زندگی نے لاہور کی ادبی فضا سے نکال کر انگلینڈ کی کڑی تنہائی جھیلنے کا فیصلہ سنا دیا، ممکن تھا کہ ان کی آواز اجنبی فضائوں میں کہیں گم ہو جاتی لیکن ایک بڑے شعلے سے ٹوٹی ہوئی چنگاریوں کو کسی ترکیب سے انھوں نے نہ صرف زندہ رکھا بلکہ ان سے ایک الائو بنانے میں بھی کامیاب رہیں۔ فرخ یار کہتے ہیں ’’ گلناز کی شاعری وقت، خواب در خواب دریائوں اور زندگی کے بہائو کی کہانی ہے۔

میں نے جب پہلی بار گلناز کی نظمیں پڑھیں تو مجھے لگا جیسے کوئی آنکھوں کی راہداریوں میں وجود عدم کی پراسرار دنیا کے بند دروازوں پر مسلسل دستک دیے جا رہا ہو ۔ ۔۔ موجود سے آگاہ، وجود کے احساس سے بھرا ہوا ۔۔۔ اس کے شگاف بڑھتے ہیں، پھیلتے ہیں، اسے بار بار اپنا آپ سمیٹنا پڑتا ہے ۔ اس نے زندگی میں کلام کو سکوت پر ترجیح دی ، گمنام مسافت کی روشنی اور ناامیدی کی دھول سے بچ کر چلی، زمانوں کے تحرک سے ہمکنار ہوئی، یوں اس کا دل مسلسل دھڑکتا رہا۔ ویسے تو اس کے دل میں کئی ڈر بھی چھپے تھے، ویسے تو اس نے لحظہ لحظہ پیڑوں سے اترتی ہوئی چھائوں بھی چنی مگر اس کے ہاتھوں پر چھالوں کی لو اس کے چوگرد کو روشن کر گئی۔

اسے سب پتہ ہے کہانی نے کہاں سے آغاز کیا ، کیا کیا موڑ لیے، اگلے پہروں کیا کیا موڑ مڑے گی۔ کہانی کی آنکھوں میں دن کا اجالا کتنی دیر ٹھہر کر ریت بن جائے گا۔ وہ واقف ہے کہ سچ اپنے آپ میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ ۔ وہ سب جانتی ہے کہانی کے اندر باغ ، شہر، گلیاں ، محلے کتنی دیر آباد رہیں گے ۔اس کے علم میں ہے سمے کا بہائو واہمہ ہے قدم لڑکھڑا گئے تو زیادہ دیر دیوار ہستی سے لگ کر سانسوں کی مہلت میسر نہیں رہے گی۔ گلناز اپنی تنہائی ، بھیڑ، حلقہء بصارت اور حد سماعت سے آگاہ ہے اسی لیے وہ یہ پکارتی ہے کہ یہ ابن آدم اپنی کہانی سے کٹ کر کہاں بھاگے جا رہا ہے ۔ کہانی جو ابن آدم نے خود ہی بڑے جتنوں سے ترتیب دی اور اب اس سے بے زار ہے۔‘‘ ان کی شاعری دل کے تار چھیڑ دیتی ہے، بہت شاندار کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

نامْراد کراچی
مصنف : خالد فاطمی، ناشر: ہارون پبلی کیشنز، کراچی
صفحات:399، قیمت:1100 روپے


بعض کتابوں کے بارے میں یہ تعین کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ انھیں تصانیف کے کس زمرے میں جگہ دی جائے۔ ’’نامراد کراچی‘‘ بھی ایک ایسی ہی تصنیف ہے، جس میں تاریخ بھی ہے، خودنوشت بھی، کہانی کا رنگ بھی مضمون کا آہنگ بھی، کہیں خاکے کھنچ رہے ہیں تو کہیں لفظ منظر بن رہے ہیں۔ تاہم کتاب کو اس اسلوب کی رنگارنگی سے کہیں زیادہ دل چسپ اس میں شامل واقعات اور کردار بناتے ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی موضوع ماضی کا کراچی، اس کے لوگ اور گلی کوچے ہیں، جنھیں مصنف نے بڑی خوب صورتی سے رقم کیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف خالد فاطمی ساٹھ کے دہے کی ابتدا میں مشرقی پاکستان سے کراچی وارد ہوئے، جہاں انھوں نے بڑی متحرک سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی گزاری، چناں چہ شہر کے ادیبوں، دانش وروں اور فن کاروں سے عام آدمی تک ان کا طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑا، جن میں ایسے کردار بھی شامل تھے جنھیں ہمارے معاشرے میں اس سماجی حاشیے سے بھی آگے رکھنے کا چلن ہے جو طبقاتی تقسیم کی آخری لکیر ہے، اور جن سے تذلیل، تضحیک اور بھیک کے علاوہ یہ معاشرہ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔ چونکاتی تحریروں کے اس مجموعے میں شامل ہر تحریر کسی واقعے اور شخص کی حکایت ہے، جن میں قدر مشترک ان کا کراچی سے تعلق ہے۔

یوں یہ کتاب کراچی کے بیتے ایام، کھوئی ہوئی اقدار اور پورے برصغیر کا تصویرکدہ بن جانے والے اس شہر کی تقسیم کے بعد جنم لے کر کئی عشروں تک سانس لیتی زندگی کا احوال اور نوحہ بن کر سامنے آئی ہے۔ خالد فاطمی نے ’’خیالِ خاطر ِاحباب‘‘ کیے اور ذرا بھی جھجھکے بغیر بڑی بے خوفی سے ایسے ایسے انکشافات کیے ہیں جن سے آنکھیں چرائی یا جن کے تذکر ے پر آنکھیں دکھائی جاتی ہیں۔ مثلاً فاطمی صاحب پرنٹنگ کا پیشہ اپنائے ہوئے تھے، ایک مرتبہ مولانا محمد علی جوہر کی برسی کے موقع پر انھوں نے ایک کتابچہ ترتیب دے کر اپنے کلائنٹ کراچی پورٹ ٹرسٹ کو برائے اشاعت پیش کیا۔ تب انھیں ایک سرکاری حکم نامہ دکھایا گیا، مصنف کے الفاظ میں جس کا لب لباب یہ تھا،’’اب پاکستان بن چکا ہے ہمیں صرف ان لیڈروں کا تذکرہ کرنا چاہیے جن کا تعلق اس زمین سے پیدائشی ہے۔

جن لوگوں نے اس ملک کے لیے قربانیاں دیں لیکن پیدائش ہندوستان میں ہوئی، گویا وہ بنیاد کی اینٹیں ہیں، ان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ اسی ذہنیت کی دین تھا جس کی سڑاند اس حکم نامے سے اٹھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کتاب میں ہماری سیاست اور سماج کی ایسی ایسی تصویریں دکھائی گئی ہیں جنھیں دیکھ کر پڑھنے والا حیران ہوکر خود سے پوچھ بیٹھتا ہے۔۔۔’’کیا یہ ہم ہیں؟‘‘ ان میں ایک منظر ایسی خفیہ محفل کا ہے جہاں پڑھے لکھے، صاحب حیثیت اور دولت مند مرد، تمام لوازمات کے ساتھ عورت کا روپ دھارے رقصاں ہیں۔ ایسے ہی ’’جادونگری کالونی‘‘ کے خوف ناک مناظر اپنی پوری سنسنی خیزی کے ساتھ قاری کو کسی ہارر فلم کے سین میں لے جاتے ہیں، اور وہ یہ جان کر ششدر رہ جاتا ہے کہ روشنیوں کے شہر میں کیسے کیسے اندھیرے کونے کھدرے بسے ہیں۔

’’نامراد کراچی‘‘ کی وقعت بیان کرنے کے لیے یہ بتا دینا ہی کافی ہے کہ اس کا پیش لفظ محترم شکیل عادل زادہ کے جادوئی قلم سے نکلا ہے، جن کا کہا لفظ، زبان اور کتاب کے لیے مستند حوالہ بن جاتا ہے۔ وہ مصنف اور ان کی قلمی کاوش کی بابت لکھتے ہیں،’’زیرنظر کتاب ہی ان کی یکتائی ویگانگی کی سند ہے۔‘ ‘ عمدہ طباعت کے ساتھ شایع ہونے والی یہ کتاب طرز تحریر اور مواد دونوں اعتبار سے اتنی سحر انگیز ہے کہ اسے کھولنے کے بعد پوری پڑھے بغیر بند کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور اختتام پر خاتمے کے افسوس اور تشنگی کے احساس سے دل بھر جاتا ہے۔


%d8%a8%d9%8f%da%a9-%d8%b4%db%8c%d9%84%d9%81-%d8%a7%db%8c%da%a9%d8%b3%d9%be%d8%b1%db%8c%d8%b3-%d8%a7%d8%b1%d8%af%d9%88

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *