بے بس یا بے حس نظام انصاف؟

0

کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کمزور، کانپتے ہاتھوں میں دنیا سے بے خبر ایک بے جان سا جسم متلاشی ہے انصاف کا، رحم کا، محبت کا اور ایک بیٹی ہونے کے ناتے احترام کا۔

ہمارے ہاں بحیثیت ’’مہذب معاشرہ‘‘ بہت اہمیت دی جاتی ہے کہ لڑکی ذات ہے، عزت ہے گھر کی چار دیواری میں ہی اچھی اور محفوظ لگتی ہے۔ لیکن ایسی سوچ اور فکر صرف اپنی بیٹیوں کےلیے ہوتی ہے، کسی غریب کے ہاں جنم لینے والی لڑکی کےلیے نہیں۔

دو چیزیں ’’عزت اور انصاف‘‘ بار بار اور کسی کو نہیں ملتا اور خاص کر ایک ایسے بے حس نظام میں اور وہ بھی غریب کو، یہ تو سوچنا بھی خیالی دنیا یا یہ کہہ لیجیے کہ حماقت سے کم نہیں۔ جہاں ملک کے دارالحکومت میں، پریس کلب کے باہر ایک بوڑھا باپ اپنی ان 3 بیٹیوں کےلیے انصاف کی بھیگ مانگ رہا ہو جن میں سے 2 بیٹیاں پچھلے 12 سال سے اغوا ہیں۔ ایک 17 سال کی معصوم فضا دنیا کی تلخیوں سے بے خبر ہونے کے باوجود بھی ان کی ستم ظریفی کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ ذہنی معذور، ٹانگوں سے اپاہج فضا جس کو لیے بوڑھا بےبس اکرم گیلانی اپنے ملک کے بڑوں سے انصاف چاہتا ہے۔

شہرِ اقتدار کی تپتی ہوئی چھاؤں میں بھی خوشیوں بھری ایک خودمختار، خوبصورت زندگی گزارنے والا اکرم گیلانی اور اس کا خاندان پچھلے 12 سال سے دربدر سڑکوں پر ہے۔ اکرم گیلانی نے اپنی اغوا ہونے والی دونوں بیٹیوں کے نکاح کیے ہوئے تھے مگر گاؤں کے وڈیروں کی فرعونیت کہ ان دونوں لڑکیوں کو نہ صرف اغوا کروایا بلکہ زبردستی ان کا نکاح بھی پڑھوا دیا۔ اور پھر رہی سہی کسر ہماری ہونہار پولیس نے نکال دی، جن کی مداخلت کے بعد جہاں انصاف کی کچھ امید جاگی، اکرم گیلانی کے خاندان کے پاس نہ چھت رہی، نہ سواری۔ اور پھر حد تو یہ ہوئی کہ اپنی بیٹیوں کےلیے در در جاکر انصاف مانگنے والی ماں بھی اپنی بیٹیوں کا غم لیے دارِ فانی سے چلی گئی اور اب صرف بوڑھا باپ اور 17 سالہ معذور فضا ہے جس کے علاج کےلیے روزانہ دو ہزار کا خرچہ ہے مگر اس بے بس باپ کے پاس ایک دھیلا نہیں کہ وہ اس بچ جانے والی بیٹی کےلیے ہی کچھ کرسکے۔

یہ سب ایسا ہی جیسے 9 سال قبل لاپتہ ہونے والے صحافی مدثر نارو کی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ ہوا۔ انصاف کی آرزو لیے بیوی اس دنیا سے چلی گئی اور معصوم 9 سالہ سچل نارو اس بے حس نظام میں اکیلا رہ گیا۔ ہمارے وہ لاپتہ لوگ جن کی مائیں بہنیں، بچے برسوں سے ان کی جبری گمشدگی کے خلاف اور ان کی بازیابی کےلیے عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں، مگر کوئی انصاف کا ترازو تولنے کو تیار نہیں۔

اور یونہی نجانے ایسے کئی انصاف کے متلاشی در در کی ٹھوکریں کھانے والے کمزور لوگ ہیں جو اس نظام کی بے حسی اور اوپر بیٹھے چند طاقت ور عناصر کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ ہمارا نظام انصاف، ہمارے آئین، ہمارے ملک میں صرف دکھلاوے کےلیے ہی سہی نافذ شریعت پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ اسی لیے پاکستان کا انصاف کا ترازو اسے دنیا بھر میں 142 میں سے 130 ویں نمبر پر رکھ رہا ہے۔ پاکستان میں قائم عدالتوں میں تقریباً 26.2 ملین کے قریب ایسے مقدمات ہیں جو زیر التوا ہیں۔ صرف سپریم کورٹ میں ہی 52,450 کیسز التوا کا شکار ہیں اور یہی نظام انصاف کو سست کرتا ہوا جرائم میں اضافے اور ملک میں بدامنی کا باعث بن رہا ہے۔

سیاسی اشرافیہ کی ایک دوسرے کے خلاف کھینچا تانی کے نتیجے میں بے جا سیاسی کیسز ہماری عدالتوں میں سنے جارہے ہیں۔ بھٹو کو پھانسی دیے، مشرف کو فوت ہوئے برسوں بیت گئے مگر ان کے کیسز کا فیصلہ کرنا ہماری عدلیہ پر جیسے لازم کردیا گیا ہو اور عوام کے جائز کیسز سننے اور فیصلہ کرنے کےلیے وقت درکار ہو۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس سب کو نظام عدل کی بے حسی کہا جائے یا بے بسی؟ لیکن دونوں ہی صورتوں میں اس ملک میں بسنے والا غریب انسان پس رہا ہے، در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے مگر اس کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔

اور سانحہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں۔ 25 کروڑ کی آبادی میں سے کوئی نہیں جو لوگوں میں ریاست کے ان پر حقوق اور فرائض کو بخوبی واضح کرسکے بلکہ حد تو یہ ہے کہ جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ وہیں ہاتھ صاف کرلیتا ہے، بغیر یہ سوچے کہ اس غریب کی بھی کوئی زندگی، کوئی عزت نفس ہے۔ من حیث القوم یہی ہمارا المیہ ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ظلم پر خاموش رہنے والا بھی اس ظلم میں برابر کا شریک ہوتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ
’’کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں‘‘

اور دیکھیے ہم بڑے فخر اور دھڑلے سے کفر بھی کررہے ہیں اور ظلم بھی۔ تو یقیناً ہمارا زوال ہی مقدر ہے اور ایسا بے حس اور بے بس نظام بھی۔ بحیثیت قوم ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اکرم گیلانی اور ان کی بیٹیوں کےلیے نہ صرف آواز اٹھائیں بلکہ ان کی مالی معاونت بھی کریں تاکہ ان کا آخری سہارا ان کی بیٹی فضا جلد صحتیاب ہوسکے اور صرف یہی نہیں ہمارا اخلاقی، شرعی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں پر ہونے والے ظلم، زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ کوئی اور ماں اپنی بیٹیوں کی حسرت لیے اس دنیا سے نہ جائے، کوئی اور بیٹی فرعونیت کا نشانہ نہ بنے۔ بلاشبہ ہر ایک فرد کے تعاون سے ہی ایک قافلہ بنے گا اور اس ملک میں ہماری آنے والی نسلیں حقیقی معنوں میں آزادی اور انصاف کے سائے میں پروان چڑھ سکیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


%d8%a8%db%92-%d8%a8%d8%b3-%db%8c%d8%a7-%d8%a8%db%92-%d8%ad%d8%b3-%d9%86%d8%b8%d8%a7%d9%85-%d8%a7%d9%86%d8%b5%d8%a7%d9%81%d8%9f

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *