سوال یہ ہے؟ – ایکسپریس اردو

0

ہاہا کار مچی ہوئی تھی، بجٹ آرہا ہے بجٹ آرہا ہے۔ آخرکار تھا انتظار جس کا وہ شاہکار آگیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری کی چکی میں پستے ہوئے بے بس اور بے کس عوام کے زخموں پر نمک پاشی ہوگئی۔ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ بھگت کبیر ؔنے ٹھیک ہی کہا ہے۔

چلتی چاکی دیکھ کے دیا کبیرا روئے

دو پاٹن کے بیچ میں ثابت رہا نہ کوئے

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب بجٹ سال بھر میں ایک مرتبہ آیا کرتا تھا اور لوگ اس کی بنیاد پر اپنا آیندہ کا حساب کتاب ترتیب دے دیا کرتے تھے پھر ؤں ہوا کہ یہ روایت ختم ہوگئی اور پھر وقت بے وقت بجٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صبح شام بجٹ آنے لگا جس کے نتیجے میں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے مزے آگئے۔

حالت یہ ہے کہ صبح کو نرخ کچھ دوپہرکوکچھ اور شام کوکچھ اور۔ محدود آمدنی والے طبقات بالخصوص تنخواہ دار لوگ بری طرح پریشان ہیں کہ کیا کریں اورکیا نہ کریں۔ سفید پوشوں کے لیے عزت کا بھرم رکھنا مشکل نہیں بلکہ محال ہو رہا ہے۔

بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جو برائے نام اضافہ کا اعلان کیا جاتا ہے اس پر ابھی عمل درآمد نہیں ہوا ہوتا کہ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا ایک سیلاب بلا آجاتا ہے۔ اس حوالے سے ملک کے نامور ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق ( مرحوم) یاد آرہے ہیں جنھوں نے پرائس انڈیکیشن کا منصفانہ نظام متعارف کرایا تھا جس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کو قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ منسلک کر دیا گیا تھا۔

بدقسمتی سے یہ مربوط نظام ترک کردیا گیا جس کے نتیجے میں سرکاری ملازمین حکومت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے۔ بعض سرکاری محکمے جن میں تنخواہوں سے بھی زیادہ اوپرکی آمدنی کی گنجائش ہے ان کے ملازمین پر مہنگائی میں اضافے کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ رہی بات بڑے بڑے ساہوکاروں کی تو ان کی خدمت کے لیے ایسے ماہر ٹیکس ایڈوائزر موجود ہیں جو ٹیکسوں سے بچنے کی تدبیریں اور ترکیبیں مہیا کرتے ہیں۔

بجٹ کے تجزیہ نگار دوگروہوں میں تقسیم ہیں۔ ایک وہ جو شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کے پیروکار ہیں اور دوسرے وہ جو مرزا محمد رفیع سوداؔ کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ جہاں تک پارلیمان کا تعلق ہے تو اس نے بجٹ کو منظوری دے دی ہے۔ سانپ گزر گیا اور اب لکیر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں، رات گئی بات گئی۔ پی پی پی نے کچھ شور مچایا پھر اس کے بعد بجٹ کے حق میں ووٹ دے دیا۔ تھوڑی بہت بحث ضرور ہوئی لیکن یہ محض ایک دکھائوا تھا جب کہ پی ٹی آئی پارلیمان میں زیادہ شور نہیں مچا سکی، کؤنکہ پی ٹی آئی والوں کو اندرونی کشمکش اور خلفشار سے ہی فرصت نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) اپنی مرضی کا بجٹ منظورکرانے میں باآسانی کامیاب ہوگئی۔

بجٹ کے بارے میں جو قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں بالآخر وہ درست ثابت ہوئیں لیکن ہوا وہی جو ہونا تھا، جہاں تک مقتدر اداروں کا تعلق ہے بجٹ میں ان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کی حاضر سروس ملازمین کی تنخواہیں معقول ہوتی ہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور انھیں پرکشش ماہانہ پینشن کے علاوہ بہت سی دیگر مراعات بھی حاصل رہتی ہیں۔

عرصہ ہوا کہ سینیٹ کے ایک معزز رکن نے اؤان بالا میں برجستہ تذکرہ بھی کیا تھا جو ان کی جرات اظہار کا نمونہ تھا۔ بجٹ میں براہ راست لگائے جانے والے ٹیکس تو نظر آتے ہیں لیکن دوسری قسم کے ٹیکس آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں اور یہ وہ ٹیکس ہیں جو عوام کا کچومر نکال دیتے ہیں۔

بجٹ کے اعلان کے بعد وزیر خزانہ کی پریس کانفرنسوں نے رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب پہلے وزیر خزانہ نہیں ہیں جنھوں نے قوم کو بہتر مستقبل کی نوید سنائی ہے اور یہ کہا ہے کہ دکھ بھرے دن گزرنے والے ہیں اور اس کے بعد خوشؤں اور خوشحالی کی ایک نئی سحر ہونے والی ہے۔ ان سے پہلے تقریباً نصف درجن وزیر خزانہ اس طرح کی تسلیاں دے چکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ پؤستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔

2018 سے قوم کو یہ خوشخبری سنائی جاتی رہی ہے کہ ان کی یہ تکلیف عارضی ہے۔ ایک جانب عوام سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی پیٹی کس لیں اور دوسری جانب حکمرانوں کے اللے تللے مسلسل جاری ہیں۔

جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو پیٹی کستے کستے ان کی کمر ہی غائب ہوچکی ہے۔ اب کسیں تو کیا کسیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ انھی وزیر خزانہ نے اپنی تقریر کے دوران قومی اسمبلی کے اسٹاف کے لیے 3 ماہ کا بونس دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ اس سے قبل وہ ساری بؤروکریسی کو بھاری اضافہ کی نوید سنا چکے ہیں۔ کیا کسی میں اتنی ہمت اور جرات ہے کہ وہ حکمران طبقے سے اس سوتیلے پن کے سلوک کے بارے میں سوال کر سکے۔


%d8%b3%d9%88%d8%a7%d9%84-%db%8c%db%81-%db%81%db%92%d8%9f-%d8%a7%db%8c%da%a9%d8%b3%d9%be%d8%b1%db%8c%d8%b3-%d8%a7%d8%b1%d8%af%d9%88

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *