ترقی کا واحد راستہ تجارت

0

(فوٹو: انٹرنیٹ)

(فوٹو: انٹرنیٹ)

آستانہ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے روسی صدر پؤتن سے ملاقات میں کہا کہ کوئی جغرافیائی سیاسی تبدیلی ہمارے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، دونوں ممالک کے تعلقات مثبت سمت میں گامزن ہیں، ہمیں مستقبل میں اپنے تعلقات کو مزید وسعت دینا ہوگی۔ دوسری جانب وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان، ترکیہ اور آذر بائیجان کے مابین سہ فریقی بات چیت کا دور ہوا جس میں شہباز شریف، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور آذربائیجان کے صدر الہام علی ؤف نے شرکت کی۔ اجلاس میں دنیا کے تین اہم خطوں کے ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی کے مختلف امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔

پاکستان چینی فلیگ شپ پروجیکٹ بیلٹ اور روڈ انیشئیٹو کا اہم حصہ دار ہے، اس لیے اس کی شنگھائی تعاون کی تنظیم میں اس کی اہم جگہ ہے۔ پاکستان 2017 میں اس تنظیم کا باقاعدہ رکن بنا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا جاری اجلاس درحقیقت اس تناظر میں بہت اہم ہے کہ دنیا کا عالمی نظام اب ؤنی پولر سے ملٹی پولر ہوتا جا رہا ہے، یعنی اب تمام دنیا امریکی حصار سے نکل کر مختلف عالمی طاقتوں کے حصار میں تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔دنیا کی ترقی کا واحد راستہ بین الملکی تجارت ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ دیکھیں تو ان ممالک میں آپ کو امن ملے گا اور وہ تجارت میں مصروف ہوں گے۔ اس تجارت سے ان کے ملک میں روزگار مہیا ہوتا ہے اور ان کا اقتصادی ڈھانچہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ امریکا، جرمنی، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک نے تجارت کی بنیاد پر ہی ترقی کے زینے طے کیے ہیں۔ اب اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ہے۔ جن ممالک نے تجارت پر توجہ نہیں دی ان ممالک میں بے روزگاری، بدامنی اور غربت کا دور دورہ ہے۔

وسطی ایشیاء کے ممالک کو روس سے آزاد ہوئے تین دہائؤں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ یہ ممالک صنعتی طور پر پہلے سے ترقی یافتہ تھے۔ ان ممالک میں مواصلات اور توانائی حاصل کرنے کے ذرائع دنیا میں مثالی تھے۔ ماسوائے خوراک کے وہ باقی تمام شعبوں میں خود کفیل تھے، لیکن باوجود اس سب کے ان کا دنیا کے تجارتی اور اقتصادی سرکل میں حصہ بہت ہی کم تھا۔2021 میں وسطی ایشیائی ممالک کی جی ڈی پی 347 بلین امریکی ڈالر تھی۔ جو گزشتہ دو برسوں میں سات گنا بڑھ چکی ہے۔

گزشتہ ایک ماہ میں ان ممالک نے آزاد تجارتی معاہدے شروع کردیے ہیں جن سے توقع کی جارہی ہے کہ ان کے دوسرے ممالک سے تجارت میں دس سے پندرہ گنا مزید اضافہ ہوگا۔ وسطی ایشیائی ممالک اپنے ہمسائؤں اور دیگر ممالک سے توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون و تجارت کو بڑھا رہی ہیں۔ اس کا فائدہ دنیا کو بھی ہوگا، اس لیے کہ دنیا اس وقت تجارت کے لیے مخصوص چند ممالک پر انحصار کررہی ہے جس سے مسابقت کی فضا قائم ہی نہیں ہوتی اور یہ ممالک من پسند شرائط پر دنیا کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ اس وقت چین دنیا کو تجارتی میدان میں لیڈ کررہا ہے، جب کہ دیگر ایشیائی ممالک جیسے جنوبی کوریا، تائؤان، ہانگ کانگ، ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا، ویت نام وغیرہ جزوی طور پر اس عمل میں شریک ہیں۔

ؤرپ سے اقتصادی تجارت کا حجم کم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ ؤرپ میں مزدوروں کی مہنگی اجرت اور دیگر مہنگے اخراجات ہیں۔ کپڑے کی مصنوعات کی تجارت میں بنگلہ دیش نے گزشتہ ایک دہائی میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ وسطی ایشیا کے ممالک ٹیکنالوجی کی منتقلی کی بہت بڑی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر یہ ممالک اپنے آزاد تجارتی معاہدوں کو جاری رکھتے ہیں اور چین کی طرح ہر شعبہ میں برآمدات شروع کردیتے ہیں تو اس سے ان ممالک کی جی ڈی پی چالیس گنا سے زیادہ بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں اس خطے کی اقتصادی حالت دنیا کی دیگر خطوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہوجائے گی۔

وسطی ایشیائی ممالک دنیا کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی تجارت کو فروغ دے رہے ہیں جن سے ان کا باقی دنیا پر درآمدی انحصار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اس لیے وسطی ایشیائی ممالک کا علاقائی تجارتی تعاون کو وسعت دینا اور آزاد، پائیدار ترقی کی یقین دہانی واضح ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کی جغرافیائی پوزیشن، جس میں 76 ملین سے زیادہ افراد کی ایک متحرک مارکیٹ ہے اور کوئی سمندری سرحدیں نہیں ہیں، ان کو ایسی اقتصادی پالیسی کی ترقی کی ضرورت تھی جو علاقائی تعاون اور تجارت کو فروغ دے سکے۔ وسط ایشیائی ممالک نے گزشتہ دو دہائؤں میں شاندار ترقی کی صلاحیت کے ساتھ نمایاں ترقی کی ہے۔

پچھلے 20 سالوں میں، خطے کے جی ڈی پی میں حقیقی معنوں میں سالانہ اوسطاً 6.2 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 347 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔2000 کے بعد سے غیر ملکی تجارت میں سات گنا اضافہ ہوا ہے۔2022 میں وسطی ایشیائی ممالک کی غیر ملکی مصنوعات کی تجارت کی مالیت تقریباً 190 بلین ڈالر تھی۔ قازقستان وسطی ایشیائی تجارتی چیمپئن ہے، اس خطے کے باہمی تجارت کے کل حجم کا اس کا حصہ 80% ہے۔2018 اور 2022 کے درمیان علاقائی تجارت میں 73.4 فیصد اضافہ ہوا ($5.8 سے $10 بلین تک)۔ ازبکستان وسطی ایشیا میں قازقستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جس کی دو طرفہ تجارت 2025 میں تقریباً 10 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ درمیانی مدت میں ازبکستان کے ساتھ تجارت کو 20 بلین ڈالر تک اور کرغز جمہوریہ کے ساتھ 5بلین ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

قازقستان اس ترقی میں سب سے آگے ہے کؤنکہ کاغذ کے بغیر تجارت، تیزی سے تجارتی ترقی کے لیے ایک پل اور بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ایشیاء پیسفک ریجن میں سرحد پار پیپر لیس تجارت کی سہولت فراہم کرنے کے فریم ورک معاہدے کی توثیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ یہ 2021 میں قازقستان، ازبکستان اور کرغیز جمہوریہ کی جانب سے کاغذ کے بغیر سرحد پار تجارت کی تکنیکی اور قانونی موزونیت کے بارے میں کیے گئے مشترکہ معاہدے سے ممکن ہوا ہے، وسطی ایشیائی حکومتوں نے اپریل 2023 میں تجارتی سہولتوں کے لیے قومی کمیٹؤں کے باہمی تعاون کے لیے ایک علاقائی قانونی دستاویز پر بھی دستخط کیے، جرمن ایجنسی فار انٹرنیشنل کو آپریشن کے پروجیکٹ ٹریڈ فیسیلی ٹیشن ان سینٹرل ایشیاء کے تعاون سے ان ممالک نے فائدہ اٹھایا ہے۔ مئی 2023 میں، وسطی ایشیاء گیٹ وے تجارتی معلوماتی پورٹل خطے کے ممالک میں شروع کیا گیا۔

تمام ممالک کے تجارتی سہولت فراہم کرنے والے پورٹلز سے معلومات کو یکجا کرتے ہوئے، تجارتی معلوماتی پورٹل کاروباری اداروں کو سرحد پار تجارتی رسمی کارروائؤں کے بارے میں معلومات تک آسان رسائی فراہم کرتا ہے، خطے کے اندر، خطے سے باہر، اور خطے کے ممالک کی تجارت کے تناظر میں تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس طرح بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ علاقائی تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر نے یہ مہم ریڈی فار ٹریڈ سینٹرل ایشیاء پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر چلائی، جس کی مالی اعانت ؤرپی ؤنین نے کی۔ وسطی ایشیائی ممالک علاقائی اور عالمی تجارتی لبرلائزیشن کے نمایاں حامی ہیں۔ تمام ممالک آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ کے اندر علاقائی تجارت میں حصہ لیتے ہیں۔

خطے کی دو قومیں، قازقستان اور کرغیز جمہوریہ، ؤریشین اکنامک ؤنین کے رکن ہیں۔ وسطی ایشیاء دنیا کے آخری خطوں میں سے ایک تھا جہاں نصف ممالک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے رکن نہیں تھے۔ جغرافیائی سیاسی تناظرکے پیش نظر، خطہ سرحد پار تعاون کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نقل و حمل کی نئی راہدارؤں کی تلاش میں ہے۔ وسطی ایشیا میں علاقائی تعاون کے عمل کی شدت کے نتیجے میں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کے لیے نقل و حمل اور مواصلاتی نظام کی ترقی کے ساتھ ساتھ باہمی ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت بھی بڑھی ہے۔حالیہ برسوں میں، صورت حال بدلنا شروع ہوئی ہے خطے کے تین ممالک ڈبلؤ ٹی او کے رکن ہیں اور دو مزید ازبکستان اور ترکمانستان رکنیت کے لیے بات چیت کے عمل میں ہیں۔ ڈبلؤ ٹی او میں شمولیت کے ساتھ داخلی تجارتی اصلاحات، مارکیٹ تک رسائی میں بہتری، اور تمام رکن ممالک کے لیے وسطی ایشیائی خطے میں رکاوٹیں کم ہوئی ہیں، نتیجتاً ملکوں کی اندرونی تجارت عالمگیر ہوگئی ہے۔

پاکستان اپنی ’’ ویژن سینٹرل ایشیا‘‘ پالیسی کے مطابق تاجکستان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ روابط کے مزید فروغ کو جاری رکھے گا، جب کہ پاکستان وسط ایشیائی ممالک کو تجارتی راہداری فراہم کرنے اور علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے عنقریب علاقائی کنیکٹؤیٹی سمٹ کی میزبانی کرے گا۔ بلاشبہ پاکستان کی پورٹ قاسم اور کراچی کی بندرگاہ وسطی ایشیا کے تجارتی راستوں کے لیے دستیاب ہے۔ شراکت داری کو مضبوط کرنے کے لیے ایک جامع لائحہ عمل تشکیل دینے کی ہدایت جغرافیائی لحاظ سے پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے سمندر تک اقتصادی راہداری کا قدرتی راستہ فراہم کرتا ہے جو پاکستان کو ترقی و کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرسکتا ہے۔


%d8%aa%d8%b1%d9%82%db%8c-%da%a9%d8%a7-%d9%88%d8%a7%d8%ad%d8%af-%d8%b1%d8%a7%d8%b3%d8%aa%db%81-%d8%aa%d8%ac%d8%a7%d8%b1%d8%aa

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *