انا چھوڑیں ٹیم کو دیکھیں

0

پہلے برسوں میں سننے کو ملتا تھا کہ کسی کمزور ٹیم نے پاکستان کو ہرا دیا (فوٹو: پی سی بی)

پہلے برسوں میں سننے کو ملتا تھا کہ کسی کمزور ٹیم نے پاکستان کو ہرا دیا (فوٹو: پی سی بی)

’’ہیڈ مسٹریس نے جیسے ہی پوزیشن ہولڈرز کے نام لینا شروع کیے، میں الرٹ ہو کر بیٹھ گیا، پہلی، دوسری اور جب تیسری پوزیشن پر بھی دیگر بچوں کے نام سامنے آئے تو میں نے مایوسی کے عالم میں سر تھام لیا، پھر جب مارک شیٹ ملی تو میرا رینک12 واں تھا، مجھے افسردہ دیکھ کر کلاس ٹیچر آئیں اور وجہ پوچھی، میں نے انھیں سچ بنا دیا تو وہ مسکرانے لگیں اور کہا کہ ’’ بیٹا سچ بتانا تم نے پڑھائی کتنی کی تھی‘‘ میں نے بتا دیا کہ اتنے گھنٹے پڑھا تھا اور ساتھ کرکٹ بھی کھیلتے رہا، یہ جواب سن کر وہ کہنے لگیں کہ ’’پوزیشن حاصل کرنے کیلیے کھیل کود کم کر کے زیادہ تر وقت پڑھائی کو دینا پڑتا ہے، جب تمہاری تیاریاں ایوریج تھیں تو پوزیشن بھی ایوریج ہی سامنے آئے گی‘‘یہ بات میرے دل میں بس گئی تھی۔۔

کئی برس پہلے بھی میں نے کالم میں یہ واقعہ تحریر کیا اور اب قومی ٹیم کی  حالیہ کارکردگی دیکھ کر ایک بار پھر یاد آگئی، ہمیں مسلسل شکستیں ہوتی ہیں لیکن پھر جب ورلڈکپ جیسا کوئی ٹورنامنٹ آئے تو ہم ٹیم کی ٹرافی تھامے وکٹری پریڈ کا خواب ہی دیکھتے ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے، جب تک تیاریاں مکمل نہیں ہوں گی، آپ کیسے ٹاپ پرفارمرز بنیں گے، مجھے تو یہ بات ٹیچر نے سمجھا دی تھی لیکن قومی ٹیم کے ٹیچر (ہیڈکوچ ) گیری کرسٹن تو ان دنوں بھارت میں آئی پی ایل کے ڈالرز سمیٹ رہے ہیں، وہ جب آئیں گے تو ورلڈکپ سر پر ہوگا، پھر اگر خدانخواستہ نتائج اچھے نہ رہے تو کہیں گے کہ ’’میرے پاس جادو کی چھڑی نہیں تھی کہ چند دن میں ٹیم کی قسمت بدل دیتا‘‘ پھر ہم بھی صبر کر کے بیٹھ جائیں گے۔

پی سی بی کو اس وقت ایسے کوچ کا تقرر کرنا چاہیے تھا جو ٹیم کو دستیاب بھی ہوتا لیکن کیا کریں کوئی غیرملکی بڑا نام مل ہی نہیں رہا تھا کیونکہ سب جانتے ہیں بورڈ میں تبدیلی ہوئی تو جلد گھر جانا پڑے گا، ایسے میں جو ملا اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا، اس وقت ٹیم کا کوئی رہنما نہیں ہے، وہاب ریاض چیئرمین کی آنکھ کا تارا ہیں لیکن وہ موجودہ قومی کرکٹرز کے ساتھ کھیل چکے اس لیے ویسی عزت نہیں مل رہی جو کسی زیادہ پرانے کرکٹر کو ملتی، اظہر محمود چند دنوں کیلیے ہیڈ کوچ بنے ہیں ہم ناقص کارکردگی کا ملبہ ان پر نہیں ڈال سکتے، بابر اعظم بھی بطور کپتان بجھے بجھے سے دکھائی دے رہے ہیں۔

چند سال پہلے جب میں نے ’’ کرکٹ کا حال ہاکی جیسا نہ ہو جائے‘‘  کے عنوان سے ایک کالم لکھا تو اس وقت پی سی بی کے ایک اعلیٰ آفیشل سخت ناراض ہو گئے تھے کہ ’’ہمارا ابھی اتنا بْرا حال بھی نہیں ہوا اور آپ ہاکی کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں‘‘البتہ اب اذلان شاہ کپ میں ہاکی ٹیم کے شاندار کھیل کو دیکھ کر ہم یہ بات بھی نہیں کہہ سکتے، کرکٹرز سال میں کروڑوں روپے کماتے ہیں، پی سی بی سے ماہانہ معاوضہ، الاؤنسز، اشتہارات، لیگز ان سب کا حساب لگایا جائے تو ایک اسٹار کرکٹر کی آمدنی پوری ہاکی ٹیم سے بھی زیادہ ہو گی، نام کے قومی کھیل سے اکثر یہی خبریں سامنے آ رہی ہوتی ہیں کہ کھلاڑیوں کو معاوضے نہیں ملے، ڈیلی الاؤنسز کی ادائیگی نہیں ہو رہی، ہاکی پلیئرز غریب کے غریب رہ گئے لیکن ان کے نام پر حکومت سے پیسہ لے کر آفیشلز کروڑپتی بن گئے۔

ابھی ٹیم اذلان شاہ کپ کے فائنل میں پہنچی لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا آپ کو کپتان کا نام معلوم ہے، کوئی ایک کھلاڑی ایسا نہیں جسے لوگ جانتے ہوں ، آخری سپراسٹار سہیل عباس تھے،کرکٹ میں ہم افتخار احمد کو سر گیری سوبرز جیسا اسٹار سمجھتے ہیں، میڈیا نے ہاکی پر توجہ دینا چھوڑی کیونکہ ٹیم کی کارکردگی زوال پذیر تھی، ہاکی کھلاڑی کچھ نہ ملنے کے باوجود برسوں سے اپنا شوق پورا کر رہے ہیں، میں دعوے سے کہتا ہوں آپ کرکٹرز کو تین ماہ تنخواہ نہ دیں آدھے ٹیم کو چھوڑ کر لیگز کیلیے مختص ہو جائیں گے۔

پہلے برسوں میں سننے کو ملتا تھا کہ کسی کمزور ٹیم نے پاکستان کو ہرا دیا، اب ہر چند دن بعد کبھی زمبابوے، افغانستان، نیوزی لینڈ کی سی ٹیم یا آئرلینڈ سے شکست سامنے آتی رہتی ہے، کوچ کی طرح کپتان کی تبدیلی میں بھی بورڈ نے جلد بازی کی، آپ لاکھ ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کھلاڑیوں کے دل صاف نہیں ہیں،بابر کو یہ دکھ تھا کہ جب انھیں کپتانی سے ہٹایا تو شاہین نے کیوں ذمہ داری قبول کی، اب شاہین کا بھی ایسا ہی شکوہ ہے، انھوں نے ورلڈکپ کی تیاری کرتے ہوئے محمد عامر اور عماد وسیم کو ریٹائرمنٹ واپس لینے پر قائل کیا لیکن خود قیادت سے محروم ہو گئے۔

بابر کے عامر اور عماد دونوں سے تعلقات اچھے نہیں لیکن وہ انھیں ورثے میں ملے ہیں لہذا کھلانا پڑے گا،دونوں اسٹار کرکٹرز بھی کپتان کو پسند نہیں کرتے، ٹیم پاور پلے میں 40 رنز بھی نہ بنائے لیکن کپتان ’’شکست کے ذمہ دار بولرز ہیں ‘‘ جیسا بیان دیں تو اس سے تلخیاں مزید بڑھیں گی، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے ڈبلن میں پلیئرز سے ملاقات کی لیکن وہ کیا کر سکتے ہیں، فیلڈ میں تو کرکٹرز کو ہی کھیلنا ہے، آپ بنگلہ دیشی کرکٹرز سے کہیں کہ سب کو ایک ارب روپے دیں گے بس ورلڈکپ جیت جاؤ تو کیا وہ جیت سکتے ہیں؟ جس میں جتنی صلاحیت ہے وہ ویسا ہی پرفارم کرے گا چاہے جتنا بھی پیسہ سامنے نظر آ رہا ہو،پاکستانی کرکٹرز پر بھی ایسی ترغیبات کام نہیں کریں گی۔

نہ لیکچرز ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، چیئرمین نے اپنی کوشش کر لی اب یہ مسئلہ خود ٹیم کو ہی حل کرنا ہے، بابر اعظم سینئرکھلاڑیوں کو ڈنر پر لے کر جائیں جہاں کوئی آفیشل بھی نہ ہو، وہاں سب کھل کر ایک دوسرے کیخلاف دل کے غبار نکالیں، طے کر لیں کہ یہاں سے واپس جائیں گے تو ماضی جیسا تعلق ہوگا، سب تلخ یادیں بھلا دیں گے، بھائی یہ ورلڈکپ ہے آپ کی کوئی پراپرٹی یا کار نہیں، اگر ذاتی انا پیاری ہے تو گھر واپس چلے جائیں نئے کھلاڑی شاید بہتر پرفارم کر جائیں گے، ورنہ متحد ہو کر پرفارم کریں تاکہ بہتر نتائج سامنے آ سکیں، اب تک کے حالات دیکھ کر تو یہی لگ رہا ہے کہ بھارت تو دور کی بات ہے آئرلینڈکیخلاف میچ میں بھی فتح کیلیے قوم کو مشترکہ دعائیں کرنا ہوں گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)


%d8%a7%d9%86%d8%a7-%da%86%da%be%d9%88%da%91%db%8c%da%ba-%d9%b9%db%8c%d9%85-%da%a9%d9%88-%d8%af%db%8c%da%a9%da%be%db%8c%da%ba

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *